ایکنا نیوز- بین الاقوامی ایرانی قاری کا کہنا ہے کہ ہماری دشمنوں سے سب سے بڑی بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی نصرت پر یقین اور اُس کے وعدوں پر اعتماد ہے، جبکہ وہ اس امید سے محروم ہیں۔ قرآن کی تلاوت نہ صرف سکون دیتی ہے بلکہ قوم کے دل میں ایک اندرونی اور پائیدار قوت پیدا کرتی ہے۔"
انہوں نے واضح کیا کہ قرآن کی آیات نے ہمیشہ مشکل حالات میں امت کو حوصلہ دیا ہے، جیسے کہ جنگ بدر، جہاں مسلمانوں نے اللہ کی مدد سے فتح حاصل کی۔ اُنہوں نے کہا کہ اللہ کی نصرت اُنہی کو ملتی ہے جو اللہ کے دین کی مدد کرتے ہیں، اور قرآن کی تلاوت اس راستے میں استقامت اور اُمید پیدا کرتی ہے۔
قاری ابوالقاسمی نے سورہ نساء کی آیت ۱۰۴ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
"اگر تم زخمی ہو تو وہ بھی زخمی ہیں، لیکن تم اللہ سے اُس چیز کی امید رکھتے ہو جس کی وہ امید نہیں رکھتے۔" یہ وہ بنیادی فرق ہے جو ہمیں ان سے ممتاز کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی فوجی ترقی قابلِ ستائش ہے، لیکن اصل قوت ہماری ایمانی پشت پناہی اور الٰہی نصرت کی امید میں ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایمان، جہاد، اور شہادت کو سمجھتی ہے، ہمارے ملک میں درجنوں شہداء اور جانبازوں کے خاندان موجود ہیں جنہوں نے غیبی امداد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا:
"دفاعِ مقدس کے دوران ایک موقع پر ہم ۴۰۰ افراد دشمن کے مورچوں کے قریب سے گزرے۔ ہم ان کی باتیں سن رہے تھے لیکن وہ ہماری موجودگی سے بے خبر تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ سورہ یٰسین کی آیت وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْهِمْ سَدًّا... کی تاثیر ہمارے ساتھ تھی۔ یہ واضح طور پر الٰہی مدد تھی۔"
آخر میں انہوں نے کہا: "آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت عوام کے حوصلے کو بلند رکھنے کی ہے، اور یہ حوصلہ قرآن کی تلاوت، اللہ کے ذکر، اور اس کی وعدوں پر اعتماد سے مضبوط ہوتا ہے۔ عوام کو دعا کا دامن تھامے رکھنا چاہیے کیونکہ دعا کا اثر بہت طاقتور ہے۔" اُن کا آخری پیغام یہی تھا کہ ہماری دشمنوں سے اصل اور سنجیدہ فرق 'امید' ہے۔/
4288730