ایکنا نیوز- ایرانی ثقافتی مرکز کے مطابق پروفیسر حمید نسیم رفیعآبادی ( المعروف حمیداللہ مرازی)، جو فلسفہ و ادیان کے استاد اور ملائیشیا کی یونیورسٹی کے مہمان پروفیسر ہیں، نے رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی مدح میں اردو زبان میں ایک نظم لکھی ہے۔
پروفیسر مرازی کے ہمراہ انور حسین، جو ملائیشیا میں مقیم بھارتی تاجر اور اسلامی جمہوریہ ایران سے گہری محبت رکھنے والے فرد ہیں، نیز سید جمالالدین میری، جو کہ سوئیڈ میں مقیم ایرانی شہری اور بین الاقوامی انجمن برائے مسلمان ماہرینِ نفسیات کے رکن ہیں، اپنی اہلیہ کے ساتھ کوالالمپور میں واقع رایزنیِ ثقافتی جمہوری اسلامی ایران کے دفتر میں حبیبرضا ارزانی سے ملاقات اور گفتگو کے لیے حاضر ہوئے۔
دیدار کے آغاز میں، حبیب رضا ارزانی نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا:
"اسلامی جمہوریہ ایران، آج محورِ مقاومت میں مرکزی مقام رکھتا ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ ایران پابندیوں اور دباؤ کے باوجود اتنی ثابت قدمی دکھائے گا۔ وہ ایران کی تباہی کے خواب دیکھ رہے تھے، مگر جو کچھ پیش آیا وہ ان کے گمان کے برعکس تھا؛ عَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيئًا وَهوَ خَيرٌ لَكُم (شاید تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو)۔"
انہوں نے مزید کہا: "آج ایران نہ صرف سیاسی اور عسکری میدان میں، بلکہ ثقافتی میدان میں بھی اسلامی دنیا کے لیے باعثِ تحریک و الہام ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ایرانی نخبگان اور عالم اسلام کے مسلمانوں کی استعداد سے فائدہ اٹھا کر نئی اسلامی تہذیب کے قیام کی راہ کو پوری قوت سے جاری رکھیں۔"
پروفیسر مرازی نے ایران کی استقامت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی مزاحمت سے آج عالم اسلام کو سربلند کیا ہے۔ اس نے بہادری سے تجاوز کا سامنا کیا اور ہرگز ہار نہیں مانی۔"
انور حسین نے بھی ایران کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا:
"آج عالم اسلام کی قیادت ایران کے ہاتھ میں ہے۔ ایران نہ تو جنگ کا آغاز کرنے والا تھا اور نہ ہی اس کا ذمہ دار، لیکن اس نے اقتدار کے ساتھ جارحین کو جواب دیا۔ اب معاملہ سنی یا شیعہ کا نہیں بلکہ اسلامی اتحاد اور عزت کا ہے۔"
سید جمالالدین میری نے ثقافتی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا: "میں ہمیشہ ایرانی ہونے پر فخر کرتا تھا، لیکن آج یہ فخر دوگنا ہو گیا ہے۔ بیرونِ ملک رہنے والے ایرانی بھی یہی محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت ایرانیوں کے اندرونی و بیرونی طبقات کے درمیان ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے بہترین وقت ہے۔"
انہوں نے یورپ اور خاص طور پر ملائیشیا میں موجود ایرانیوں کی گنجائشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ:
"ایرانیوں کے بہتر اتحاد کے لیے ایک عملی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آج ایرانیوں کے مابین ہم افزائی (Synergy) سب سے اہم مسئلہ ہے۔"
دیدار کے اختتام پر، رایزنیِ فرهنگی جمہوری اسلامی ایران، ملائیشیا کی جانب سے مہمانوں کو حال ہی میں شائع شدہ کتابوں کے نسخے پیش کیے گئے۔
پروفیسر مرازی نے بھی علامہ ابن رشد کی تصنیف "فصل المقال" کا اردو ترجمہ، جو "حرفِ آخر" کے عنوان سے شائع ہوا ہے، بطور تحفہ حبیبرضا ارزانی کو پیش کیا۔
اس کے علاوہ، انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت اور رہبر معظم انقلاب کی شان میں کہی گئی اردو نظم بھی رایزن کو پیش کی، جس کے ساتھ فارسی ترجمہ بھی شامل تھا۔
اک مردِ خدا
اک مردِ خدا اٹھا—
شعور کی سرحدوں سے باہر،
جہاں نیند زدہ قومیں
تاریخ کے ملبے تلے
اپنے خواب دفن کر چکی تھیں۔
وہ آیا،
ایک صدا کے ساتھ—
جو خنجر سے زیادہ تیز،
آندھی سے زیادہ بے رحم،
اور آنسو سے زیادہ سچی تھی۔
ایران کی گلیوں میں
حق کی گونج اٹھی—
جس نے فرعونوں کی محفلوں کو ہلا دیا،
سروں کے سوداگر
لحظوں میں بے نقاب ہو گئے۔
طاغوت لرز گیا،
نامرد غلاموں کی خاموشی نے
حق کے چراغ کو
مزید روشن کر دیا۔
اس مرد نے کہا:
"ظلم کو سلام نہیں،
ایمان کو نیلام نہیں۔
یہ زمین اللہ کی ہے،
یہ حاکمیت صرف عدل کی ہے!"
اک مردِ خدا نے
ایران کے طاغوت کو للکارا،
اور دیکھتے رہ گئے
نامرد غلامانِ طاغوت۔
وہ شخص—
جس نے اسرائیل کی عظمت کو نکارا،
یورپ کے فراعنہ کو آئینہ دکھایا،
سوئے ہوئے، کھوئے ہوئے مسلمان کو جگایا۔
خامنہ ای!
تیرا احسان نرالا،
تو محض ایک فرد نہیں—
تو علامت ہے اس روح کی
جو ظلم سے انکار کرتی ہے،
جو امید کو آواز دیتی ہے،
جو بیداری کو ممکن بناتی ہے۔
تو وہ لمحہ ہے
جو وقت کے دھارے کو بدل دیتا ہے،
تو وہ چراغ ہے
جس کی روشنی خون مانگتی ہے—
لیکن ہر قطرہ
عزت، وقار، اور وفا کی چمک رکھتا ہے۔
اس مردِ خدا نے
اقوامِ عالم کے ایوانوں میں
معصوم بچوں کی چیخوں کو
ترجمہ کر دیا۔
وہ کہتا ہے:
"سستا نہیں انسان کا لہو—
چاہے وہ رنگ، نسل، فرقے یا مذہب سے ماورا ہو۔
ہم ایک ہیں،
انصاف ہمارا نعرہ،
رحمت ہمارا منشور!"
از: ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی (پروفیسر مرازی)
4295174