ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، انڈونیشیاء کی پادجاران یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی حامل اسکالر دینا سلیمان نے کہا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی ایران پر مسلط کردہ حالیہ جنگ نہ صرف ایران بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خودکفالت، آزاد خارجہ پالیسی، اور بین الاقوامی اداروں پر اندھی اعتماد کی ازسرِ نو جانچ وہ بنیادی اسباق ہیں جو قانون اور بے قاعدگی کے اس تصادم سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
یہ بات انہوں نے ایک بین الاقوامی ویبینار "عزت اور اقتدار ایران؛ ایک پیغام جو میزائلوں سے آگے ہے" میں کہی، جو 28 جولائی کو ایکنا نیوز ایجنسی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوا۔ ویبینار میں یونیورسٹی تحقیقی ادارے کے صدر اور مختلف ممالک کے ماہرین و اساتذہ نے شرکت کی۔
ویبینار میں "بین الاقوامی قانون میں ایران کا دفاعی حق"، "وعدۂ صادق 3 آپریشن اور خطے میں اسٹریٹیجک توازن کی تبدیلی"، اور "ایرانی سائنسدانوں کا قتل — ایران پر مظالم کا ثبوت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی" جیسے اہم موضوعات زیرِ بحث آئے۔
دینا سلیمان نے اپنی تقریر میں 12 روزہ امریکی-اسرائیلی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اگر اقوام متحدہ کا ڈھانچہ، خاص طور پر ویٹو سسٹم، اصلاح کا منتظر رہا، اگر ایٹمی توانائی کا ادارہ غیر جانبدار نہ رہا، اور اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جوابدہی کا کوئی مؤثر نظام نہ بنایا گیا، تو دنیا ناانصافی، بداعتمادی اور بدامنی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔"
ان کا کہنا تھا : "میں آج محض ایک جیئوپولیٹیکل محقق کے طور پر نہیں، بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں، جو اس اخلاقی زوال پر فکر مند ہے، جسے ہم آج کا بین الاقوامی نظام کہتے ہیں۔"
انہوں نے 2025 کے جون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "دنیا اس وقت پر امید تھی جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کے مذاکرات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ دونوں فریق راضی تھے، ایک پُرامن معاہدہ ممکن نظر آ رہا تھا۔ لیکن عین اسی لمحے اسرائیل نے ایران پر ایک غافلگیر حملہ کیا اور بعد ازاں امریکہ نے بھی اس حملے میں شرکت کی، جس میں ایران کی وہ جوہری تنصیبات بھی نشانہ بنائی گئیں جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں تھیں۔"
انکا کہنا تھا : "بین الاقوامی قانون کے ممتاز ماہر پروفیسر مارکو میلانوویچ نے اسرائیلی حملے کو ’جارحیت پر مبنی سنگین بین الاقوامی جرم‘ قرار دیا۔ مگر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے خاموش رہے۔"
انہوں نے بتایا کہ "حملوں میں صرف فوجی اہداف نہیں بلکہ قریبی شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ سب سے دردناک واقعہ وہ تھا جب ہلالِ احمر کی امدادی گاڑی کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا، جو زخمیوں کو امداد پہنچا رہی تھی۔"
دینا سلیمان نے اس ظلم کو صرف ایران کا مسئلہ قرار نہیں دیا بلکہ اسے فلسطین سے جوڑتے ہوئے کہا:
"یہ سب کچھ ہمیں اس طویل ظلم کی یاد دلاتا ہے جو گزشتہ 75 برسوں سے فلسطینی عوام پر مسلط ہے — غیر قانونی قبضہ، گھر مسمار کرنا، محاصرہ، اور مسلسل فوجی جارحیت۔ لاکھوں افراد بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کا سلامتی کونسل امریکی ویٹو کی وجہ سے اب تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھا سکی۔"
ان کا کہنا تھا "ایران نے ہمیشہ فلسطین کا دفاع کیا ہے، نہ سیاسی مفاد کے لیے، نہ طاقت کے حصول کے لیے، بلکہ صرف ایک اخلاقی فرض کے طور پر۔"
انہوں نے واضح انداز میں تنقید کی کہ "اقوام متحدہ اور ایٹمی توانائی کا ادارہ جن وعدوں پر قائم ہوئے تھے، وہ وعدے اب ماند پڑ چکے ہیں۔ سلامتی کونسل میں پانچ ممالک — امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس — کو ویٹو کا اختیار دے کر عالمی انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ اور IAEA جیسے ادارے بھی امریکی و مغربی دباؤ کا شکار ہیں، جو انہیں غیر جانبدار کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں۔"
آخر میں دینا سلیمان نے کہا "اصلاحات کا وقت یہی ہے، سچ بولنے کا وقت یہی ہے، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت بھی یہی ہے — چاہے وہ قدم مقبول نہ بھی ہو۔/
4294593