ایکنا نیوز- حجۃ الاسلام شیخ محمد ہادی ملکی، جو نجف اشرف سے تعلق رکھنے والے محقق اور بین الاقوامی سرگرم شخصیت ہیں، نے ایک یادداشت بعنوان "عاشورا سے ظہور تک؛ مزاحمت، میراثِ حسینی اور مستضعفین کی امید" ایکنا کے لیے تحریر کی ہے، جس میں انہوں نے نئی اسلامی طاقت کی ہیئت اور ایران و محورِ مزاحمت کے مرکزی کردار کا جائزہ لیا ہے۔
یادداشت کا متن درج ذیل ہے:
کربلا کے دل سے ایک پودا اُگا جو آج، ایران کی قیادت میں اسلامی مزاحمت کے ذریعے، ایک پاکیزہ درخت (شجرہ طیبہ) میں تبدیل ہو چکا ہے اور عدل و روحانیت پر مبنی ایک نئے تمدن کے ظہور کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا ایک عظیم تبدیلی کے دہانے پر ہے، جہاں وہ پودا جو کربلا میں بویا گیا تھا، آج شہداء کے خون سے سیراب ہو کر تناور درخت بن چکا ہے۔ ایران، اس الٰہی تحریک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے، نہ صرف عالمی طاقتوں کی ترتیب دی ہوئی طاقت کی مساوات کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ عاشورا کی تعلیمات سے الہام لے کر ایک نئے تمدن کے ظہور کا محرک بن چکا ہے، جو اسلامی بیداری اور عدل پر مبنی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی نظام یوں تشکیل دیا گیا تھا کہ پانچ بڑی طاقتیں سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے ذریعے دنیا پر فیصلے مسلط کرتی رہیں۔ جو بھی اس مسلط شدہ نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا، وہ "سرکش ریاست" کہلاتا۔ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ طاقت پر مبنی نظام قابل مزاحمت ہے اور حتیٰ کہ اسے زمین بوس کیا جا سکتا ہے – بشرطیکہ حقیقی خودمختاری، داخلی اقتدار، اور عوام کی مرضی پر انحصار کو بنیادی اصولوں کے طور پر اپنایا جائے۔
ایران نے نہ صرف ایک آزاد ریاست کے طور پر عالمی تسلطی نظام کے خلاف قیام کیا بلکہ ایک متبادل راستہ پیش کیا جسے "مزاحمت" کہا جاتا ہے۔ اس مزاحمت کا مقصد کسی پر تسلط جمانا نہیں، بلکہ مظلوموں کی حمایت، امت مسلمہ کی عزت کا تحفظ، اور امام مہدی (عج) کے ظہور کے لیے زمین ہموار کرنا ہے۔ مغربی میڈیا جو تاثر دیتا ہے کہ ایران سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے، وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ ایران درحقیقت ایک وعدے کی تکمیل چاہتا ہے جو شیعہ عقیدہ کی گہرائیوں میں رچا بسا ہے: عدل پر مبنی عالمی معاشرے کا قیام، امام عصرؑ کی قیادت میں۔
یہ راہکار ایران کی سرحدوں سے باہر نکل کر عراق، شام، لبنان، یمن اور دیگر اسلامی خطوں تک پھیل چکا ہے، جہاں یہ سب ایک تزویراتی سلسلے کی کڑیاں بن چکے ہیں۔ ایران کا ان ممالک سے تعلق وقتی مفادات پر نہیں بلکہ تاریخی اور عقیدتی اہداف پر مبنی ہے۔
ایران میں سپاہ کے عظیم کمانڈروں اور مزاحمتی قائدین کی ٹارگٹ کلنگ، جیسے شہید سید حسن نصراللہ (سید الشہداء مقاومت)، لبنان، عراق، اور شام میں، دراصل اس راستے کے محرک شریانوں کو کاٹنے کی منظم کوشش تھی۔ لیکن جو ردعمل دیا گیا، وہ دشمنوں کی توقع کے برخلاف ایک متوازن، بامقصد اور حکمت آمیز اقدام تھا۔
مزاحمتی میزائلوں پر لکھا گیا نعرہ "یا مهدی ادرکنا" (اے مہدی! ہماری مدد فرما) کوئی محض جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک اور قائم نظریہ کا مظہر ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مزاحمت کا راستہ مسلسل ترقی اور گہرائی اختیار کر رہا ہے، یہاں تک کہ اپنے مقصد کے حصول تک جاری رہے گا۔
جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
"أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ" (سورۃ ابراہیم، آیت 24) (کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح پاکیزہ بات کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی؟ جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں)
آج مزاحمت کا یہ تناور درخت زمین میں گہری جڑیں رکھتا ہے اور اس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچی ہیں۔ اور یہ اللہ کی مشیت ہے کہ یہ راستہ کامیاب ہو۔
آج کے علاقائی حالات، محرم کے مہینے کے ساتھ جڑ کر "بصیرتِ حسینی" کو مزید معنی عطا کر رہے ہیں۔ مزاحمتی افواج کی فتوحات، عاشورا کی تحریک کی یاد تازہ کرتی ہیں – وہی جذبہ جو ظلم کے خلاف قیام، عزت کی طلب اور نظریاتی وفاداری کو عالمی سامراجی طاقتوں کے مقابل ظاہر کرتا ہے۔
جب مزاحمت کا ایک میزائل صہیونی ریاست کو لرزا دیتا ہے، تو عراق، فلسطین یا یمن کی ہر ماں، ہر بچہ اور ہر نوجوان خود کو اس کامیابی کا حصہ سمجھتا ہے۔
آج مزاحمت کا نظریہ صرف مغربی تسلط کے خلاف ایک ردعمل نہیں بلکہ ایک نیا متبادل عالمی نظام ہے، جو عوام کی مرضی، راسخ عقیدہ اور عدل پر مبنی ہے۔
ایران، اس تاریخی تحریک کا نقطۂ آغاز بن کر، عالمی طاقتوں کے معیارات کو چیلنج کر چکا ہے اور ایک ایسا تزویراتی راستہ پیش کر رہا ہے جو سرحدوں، مذاہب اور خطوں سے ماورا ہے – اور یہی راستہ مستقبل کے عادلانہ عالمی نظام کی بنیاد ہے۔/
4295736