ایکنا نیوز- خبر رساں ادارے آناتولی کو انٹرویو میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کی 24ویں برسی پر کہا کہ اس واقعے کے بعد امریکہ نے ایک ایسا قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا جس میں مسلمانوں کی شناخت کو "سکیورٹی خطرہ" کے دائرے میں محدود کردیا گیا، اور یہ تصور عالمی سطح پر مسلمانوں کو بطور خطرہ پیش کرنے کا سبب بنا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ بیانیہ امریکہ میں تشکیل نہ پاتا تو میرا نہیں خیال کہ اسرائیل غزہ میں اس سطح کی غیر متناسب اور وحشیانہ طاقت استعمال کرسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 11 ستمبر کے بعد پیٹریاٹ ایکٹ (Patriot Act)، وزارت داخلہ کی تشکیل، بین الاقوامی طلبہ کے لیے جبری رجسٹریشن پروگرام اور نگرانی کے وسیع نیٹ ورکس، سب اسی پالیسی کے حصے تھے جن کے تحت مسلمانوں کی شناخت کو سکیورٹی خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔
بیدون کے مطابق، ان پالیسیوں نے امریکہ کے آئین میں دی گئی بنیادی آزادیوں، جیسے مذہبی آزادی، کو محدود کردیا۔ جتنا زیادہ مسلمان اپنی شناخت کو کھل کر جیتے، اتنا ہی زیادہ حکومت انہیں خطرہ سمجھتی۔
انہوں نے بتایا کہ پیٹریاٹ ایکٹ نے مسلمان خاندانوں اور کاروباروں پر مالی و نگرانی کے سخت کنٹرول نافذ کیے، یہاں تک کہ کچھ طلبہ اور اساتذہ کو ملک سے نکال دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی سطح کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ کچھ ریاستوں نے بھی "انتہاپسندی کے خلاف جنگ" کے نام پر مقامی پولیس اور ایف بی آئی کے درمیان تعاون بڑھایا اور مسلمانوں کو خود نگرانی (Self-surveillance) پر مجبور کیا۔
بیدون نے زور دے کر کہا کہ امریکہ میں مسلمان ، چاہے وہ کتنے ہی عرصے سے مقیم کیوں نہ ہوں، ابھی تک "اجنبی اور ناقابلِ ادغام" سمجھے جاتے ہیں۔ یہ رویہ ان میں اجنبیت کے احساس، مساجد جانے کے خوف، تعصب، مسلم خواتین و بچوں کے خلاف تشدد، اور بنیادی حقوق میں رکاوٹ کا سبب بنا ہے۔
انہوں نے عراق اور افغانستان کی جنگوں کو امریکہ کی "نوآبادیاتی تجربات" قرار دیا اور کہا کہ خاص طور پر عراق کو "تقسیم اور حکومت" کی پالیسی کے لیے ایک لیبارٹری کے طور پر استعمال کیا گیا، جبکہ اصل مقاصد امریکہ کا خطے میں اثر و رسوخ بڑھانا اور تیل تک رسائی حاصل کرنا تھے۔/
4304636