ایکنا نیوز- ڈان نیوز-ناقدین کو شکایت ہے کہ ان تعمیراتی سرگرمیوں کے باعث اس مقدس شہر کا روحانی تاثر ختم ہوگیا ہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ حج کے چودہ سو سال سے زائد پرانے اس پیغام کو چرانے کے مترادف ہے کہ امیر ہو یا غریب اللہ کے سامنے سب برابر ہیں، کیونکہ وہ یہ فریضہ اپنے روح کی صفائی کے لیے پورا کرتے ہیں، جس کے لیے وہ خانہ کعبہ کے گرد سات بار طواف کرتے ہیں۔
مکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے باعث احترام شہر ہے اور وہ اس کی جانب رخ کرکے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں، مسجد الحرام دنیا کی ان چند جگہوں میں سے ایک ہے جہاں ہر طبقے اور نسل کے مسلمان اکھٹے ہوتے ہیں۔
مکہ کا انتظام سنبھالنا سعودی بادشاہت کے احترام کا بنیادی سبب ہے، سابق شاہ فہد اور موجودہ شاہ عبداللہ نے " خادم الحرمین شریفین " کے خطاب کا اپنے نام کے ساتھ اضافہ کرکے اپنے رتبے کو بڑھایا ہے۔
اور اب یہ شہر خاص طور پر سعودی تصور کے مطابق تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کو زیادہ طاقت مل سکے۔
اس تصور کے دو عناصر ہیں، پہلا تو پیٹرو ڈالرز سرمایہ دارانہ نظام کو بڑھانا کیونکہ مکہ کے منصوبہ سازوں کی بڑی توجہ امیر زائرین پر ہے جن کے لیے خانہ کعبہ کے ارگرد فائیو اسٹار ہوٹلز کی تعمیر زور و شور سے ہورہی ہے، جبکہ یہ لوگ قریب سے ہی بین الاقوامی چینز جیسے پیرس ہلٹن اسٹورز اور اسٹاربکس وغیرہ سے خریداری کرسکتے ہیں۔
دوسرا پہلو سعودی عرب کی فقہی سوچ کو فروغ دینا ہے۔
لندن کے اسلامی ثقافتی ریسرچ فاﺅنڈیشن کے سربراہ عرفان العلاوی جو ایک سعودی نژاد شہری ہیں، کا کہنا ہے کہ مکہ کے منصوبہ سازوں کو خانہ کعبہ کے بہت زیادہ قریب تعمیرات نہیں کرنا چاہئے، اور ہوٹلوں کو اس سے میلوں دور تعمیر کیا جانا چاہئے تھے جبکہ ٹرانسپورٹ نظام کو بہتر بنایا جانا چاہئے تھا۔
ان کے بقول"پہلے ہی ہم روحانی تاثر سے محروم ہوچکے ہیں، زائرین خانہ کعبہ کو دیکھ کر اللہ کے گھر سے متاثر ہونے کی بجائے کلاک ٹاور کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں"۔