امام علی رضا علیہ السلام کی سیرت و اخلاق

IQNA

امام علی رضا علیہ السلام کی سیرت و اخلاق

9:26 - June 22, 2021
خبر کا کوڈ: 3509631
شاہ خراسان ابوالحسن علی بن موسی الرضا،امام رضا علیہ السلام کے نام سے معروف ہیں جنکا مزار ایران کے شہر مشہد مقدس میں واقع ہے۔

والی طوس یا شاہ خراسان حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت گیارہ ذیقعدہ کے موقع پر دنیا بھر میں عاشقان خاندان رسالت آج جشن و سرور کی تقریبات منعقد کررہے ہیں اس موقع پر انکی سیرت و اخلاق اور زندگیامہ پر مختصر روشنی ڈالتی ہے:

آپ کی پیدائش کا شہر مدینہ ہے مگر عباسی خلیفہ مامون عباسی نے آپ کو مجبور کرکے مدینہ سے خراسان لے کر آیا اور اپنی ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔

امام علیہ السلام نے مدینہ سے خراسان جاتے ہوئے مشہور حدیث، حدیث سلسلۃ الذہب نیشاپور میں ثبت کروائی.

مامون نے اپنے خاص مقاصد کی خاطر مختلف ادیان و مذاہب کے اکابرین کے ساتھ آپ کے مناظرے کروائے جنہیں آپ نے کامیابی کے ساتھ انجام کو پہنچایا۔

آپ کی امامت کی مدت 20 سال تھی اور آپ طوس میں دنیا سے رحلت کرگئے۔

 

 نسب، کنیت اور القاب

علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) (مدینہ 148ہجری،طوس 203ہجری) آپ کے والد حضرت امام موسی کاظم شیعیان اہل بیت کے ساتویں امام ہیں۔

 

آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جنہيں ام البنین بھی کہا جاتا تھا۔

شیخ صدوق کہتے ہیں: امام رضا علیہ السلام کی والدہ ایک کنیز تھیں بنام "تکتم" اور یہ نام اس وقت آپ پر رکھا گیا جب امام کاظم علیہ السلام ان کے مالک بنے۔

جب امام رضا پیدا ہوئے تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کو طاہرہ کا نام عطا کیا۔

صدوق کہتے ہیں: بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ کا نام "سَکَن نوبیہ" تھا نیز ان کے لئے "اروی"، "نجمہ" اور "سمانہ" جیسے نام بھی نقل ہوئے ہیں اور ان کی کنیت "ام البنین" ہے۔

 

امام رضا علیہ السلام کی والدہ ایک پاکیزہ اور پرہیزگار ام ولد تھیں جن کا نام نجمہ تھا جنہیں امام موسی کاظم علیہ السلام کی والدہ حمیدہ خاتون نے خرید کر بیٹے کو عطا کیا اور امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے بعد انہيں "طاہرہ" کا نام دیا۔ روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی والدہ کا تعلق نوبہ نامی قصبے سے تھا

 

آپ کی کنیت "ابوالحسن" ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے القاب "رضا"، "صابر"، "رضی"، اور "وفي" ہیں تاہم آپ کا مشہور ترین لقب "رضا" ہے۔

 

 انگشتری کا نقش

امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی انگشتری کے لئے ایک نقش منقول ہے: "ما شاءَ اللَّهُ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"

 

ترجمہ:جو بھی اللہ چاہے؛ کوئی قوت اور طاقت نہیں ہے مگر اللہ کی طرف سے۔

 

 ولادت

مختلف روایات میں آپ کا یوم ولادت پنجشنبہ یا جمعہ 11 ذوالحجہ یا ذوالقعدہ، یا ربیع الاول سنہ 148 یا 153ہجری بتایا گیا ہے۔

کلینی لکھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام سنہ 148ہجری میں پیدا ہوئے ہیں۔[ زیادہ تر علماء اور مؤرخین کی رائے یہی ہے۔

 

شہادت

آپ کے یوم شہادت کے بارے میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ کا روز شہادت جمعہ یا سوموار آخر ماہ صفرالمظفر 17 صفر، یا 21 رمضان، یا 18 جمادی الاولی، یا 23 ذو القعدہ، يا آخِرِ ذوالقعدہ سنہ 202، یا 203، یا 206 ذکر کیا گیا ہے۔

کلینی روایت کرتے ہیں کہ آپ صفرالمظفر سنہ 203 میں شہید ہوئے ہیں اور شہادت کے وقت آپ کی عمر 55 سال تھی۔

زیادہ تر علماء اور مورخین کی روایت کے مطابق آپ کا سال وفات سنہ 203 ہجری ہے۔

الطبرسی نے کہا ہے کہ آپ صفر المظفرکے آخر دن رحلت کر گئے ہیں۔[

 

عُمرِ مبارک

امام علیہ السلام کی عمر کے بارے میں بھی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات میں اختلاف کی بنا پر اختلاف پایا جاتا ہے اور آپ کی عمر شہادت کے وقت 47 سے 57 برس تک بتائی گئی ہے؛ بہرحال [18] امام رضا علیہ السلام کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کے بارے میں علماء اور مؤرخین کی اکثریت کے قول کے مطابق آپ کی عمر شہادت کے وقت 55 برس تھی۔

اخلاق امام رضا علیہ السلام

 

ھمارے تمام آئمہ علیہم السلام لوگوں کےدرمیان رہتے اور انکے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ عملا" ان کو زندگی، پاکیزگی، عزت و شرافت کی تعلیم دیتے تھے۔ آئمہ علیہم السلام کی زندگیاں دوسروں کےلئے عملی نمونہ تھیں۔ اگرچہ امامت کی بلند و بالا منزلت آئمہ طاھرین کو دوسروں سے بالکل جدا اور ممتاز کر دیتی تھی اور یہ تمام حضرات خدا کے منتخب بندے اور زمین پر اس کی حجت تھے لیکن ان تمام خصوصیات کے باوجود ان حضرات نے کبھی بھی اپنے لئے دربان معین نہیں کیا، اور نہ کبھی لوگوں سے الگ ھوکر تنہائی  کی زندگی بسر کی۔ جابر و ظالم حکمرانوں کی طرح اپنے لئے کوئی خاص روش انتخاب نہیں فرماتے تھے۔ لوگوں کو ہرگز اپنا غلام نہیں بناتے تھے اور نہ کبھی ان کو ذلیل و خوار کرتے تھے بلکہ ان کی عزت کرتے تھے اور ان کو حریت و آزادی کی تعلیم دیتے تھے۔

 

ابراھیم بن عباس کا بیان ہے:

میں نے ہرگز نہیں دیکھا کہ امام رضا علیہ السلام نے گفتگو کرنے میں بھی کسی پر ظلم کیا ھو اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کی بات تمام ہونے سے پہلے کاٹ دی۔ کسی ضرورت مند کی ضرورت اگر پوری کرسکتے ھوتے تو اس کو رد نہیں کرتے تھے- دوسروں کےسامنے پاؤں نہیں پھیلاتے تھے، کبھی بھی کسی غلام سے سختی سے بات نہیں کی- آپ کی ہنسی قہقہہ نہ ہوتی بلکہ مسکراہٹ ھوتی تھی، جس وقت دسترخوان چنا جاتا تھا اسوقت گھر کے تمام لوگوں کو جمع کرتے تھے یہانتک کہ خادموں کو بھی اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے تھے اور وہ سب امام کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے۔ رات میں جاگتے زیادہ تھے اور سوتے کم تھے۔ اکثر اوقات آپ صبح تک بیدار رہتے تھے، بہت زیادہ روزے رکھتے تھے اور ہر مہینہ کے تین روزے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے۔

پوشیدہ طور سے زیادہ کارخیر کرتے تھے اور اکثر رات کی تاریکی میں مخفی طور سے فقیروں کی مدد فرمایا کرتے تھے۔

 

 محمدبن ابی عباد کا بیان ہے:

حضرت کا بستر گرمیوں کے دنوں میں چٹائی تھا اور جاڑے کے موسم میں روئی کا--

حضرت گھر میں موٹا اور گاڑھا لباس زیب تن فرماتے تھے، لیکن جب آپ کسی اجتماع میں شرکت فرماتے تھے (تو عمدہ لباس زیب تن فرماتے تھے)، اور اپنے کو سنوارتے تھے۔

اعلام الوری، ص314، 315۔

ایک رات امامؑ کے گھر ایک آدمی مہمان تھا، گفتگو کے دوران چراغ میں کچھ خرابی پیدا ھوگئی، مہمان نےچاہا کہ ہاتھ بڑھا کر چراغ کو ٹھیک کردے لیکن امامؑ نے مہمان کو یہ کام نہ کرنے دیا بلکہ ہاتھ بڑھا کر خود چراغ ٹھیک کردیا، اور اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ:

 

"ھم ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں--

 

 ایک شخص نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ، قسم خدا کی، اس روئے زمین پر کوئی بھی عزت و شرافت میں آپ کے آباؤ اجداد کے برابر نہیں ہے--

 

امام علیہ السلام نے فرمایا:

تقوی اور پرہیزگاری نے انہیں شرافت عطا کی اور خداوندعالم نے انھیں باعزت قرار دیا--

 

شہر بلخ کے رہنے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ خراسان کے سفر میں امام رضاؑ کے ھمراہ تھا- ایک روز دسترخوان بچھا ہوا تھا، امامؑ نےاپنے تمام خادموں کواس دسترخوان پر جمع کرلیا تھا، یہاں تک کہ سیاہ فام غلام بھی اس دستر خوان میں شریک تھے تاکہ سب امامؑ کے ساتھ کھانا کھائیں--

میں نے امام رضا علیہ السلام  کی خدمت میں عرض کیا کہ بہتر ھو گا کہ آپ ان لوگوں کے لئے دوسرا دسترخوان بچھوا دیں اور یہ لوگ وہاں کھانا کھائیں.

 

امام نے فرمایا:

''خاموش رہو!  سب کا پروردگار ایک ہے، سب کے والدین ایک ہیں (سب ہی حضرت آدمؑ و حواؑ کی اولاد ہیں) اور ہرایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا.

 

 امام کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ امام رضاؑ نے ہم سے فرمایا تھا کہ اگر میں تمھارے سرہانے کھڑا ھوں (اور تم کو کسی کام کے لئے بلاؤں) اور اس وقت تم کھانا رہے ھو تو کھانا تمام کئے بغیر مت اٹھا کرو۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ایسا ھوتا تھا کہ امامؑ ہم لوگوں کو بلاتے تھے اور ھم کہہ دیتے تھے کہ ہم کھانا کھانے میں مشغول ہیں- امامؑ فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو کھانا کھانےدو --

ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﺎ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﺿﺎﻣﻦ ﺁﮬﻮ (ہرن کا ضامن) ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟

 

ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺮﻥﻣﯿں ﮐﭽﮫ ﺭﻗﻢ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻣﺎﻡ ﺿﺎﻣﻦ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺳﮯﺭﮐھ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﻟﮩﺎ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺑﺪ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻬﯽ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺯﻭﺅﮞ ﭘﺮﺍﻣﺎﻡ ﺿﺎﻣﻦ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎﻫﮯ. ﺍﺱ ﺭﺳﻢ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺿﺎ ‏علیہ السلام ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﺋﯽ،

ﺟﺐﺁﭘﮑﮯ ﺍﺳﻢ ِ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﺳﮑﮧ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﻮﺍ۔ ﺁﭘﮑﮯ ﻣﺤﺒﯿﻦ ﺍﺱ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﺑﺮﮐﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺿﺎﻣﻦ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ، ﺳﻮﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺍﻣﺎﻡ ﺭﺿﺎ علیہ السلام ﮐﮯ ﺫﻣﮯ ﮨﮯ.

ﯾـــﮧ ﺳﺐ ﮐﯿـــﻮﮞ ﻫـــﻮﺍ؟

ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﻮﻻ ﻣﺪﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﻭ ﯾﺎ ﺧﺮﺍﺳﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﺗﮭﮯ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮﺍﯾﮏ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﺷﮑﺎﺭ ذﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮﻧﯽ ﺍﺳﮑﮯﭼﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﮑﺎﺭﮦ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺣﺮﺑﮧ ﺁﺯﻣﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﻣﮕﺮ ﺑﮯ ﺳﻮﺩ۔ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﯽﻧﻈﺮ ﻭﺍﺭﺙ ِ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ، ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﺭﺥ ِ ﺍﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺩ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ۔

ﮨﺮﻧﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﻧﮯ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:-

"ﺍﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﯽﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﻫﯽ ﻫﮯ۔ ﮨﻢ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﭼﮑﮯ ﮔﯽ، ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲﺁﺟﺎﺋﯿﮕﯽ."

 

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﮐﮯﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﻣﻄﻤﺌﻦ، ﺟﺒﮑﮧ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻣﻀﻄﺮﺏ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭﺍﭘﻨﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﺌﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺒﻘﺖ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﺮﻧﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﻣﭩﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺮیئے ﮐﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔

ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺴﺖ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﭘﺮ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻔﺖ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﺠﺎﺯ ِ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﮯﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ.

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﻬﺮﯼ ﻣﺎﻣﺘﺎ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ٬ ﺍﻣﺎﻡﺭﺿﺎ ‏علیہ السلام ﮐﻮ ﺿﺎﻣﻦِ ﺁﮬﻮ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺩﻟﻮﺍ ﮔﺌﯽ. ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ِ ﺛﺎﻣﻦ، ﺍﻣﺎﻡ ِ ﺿﺎﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ.

کافی ج6.ص298.

(ﺑﺤـــﺎﺭﺍﻻﻧـــﻮﺍﺭ، ﺟـــﻠﺪ _٣ - ٤.)"

 

 

نظرات بینندگان
captcha