امام حسن عسکری (ع) کی مظلومانہ زندگی

IQNA

امام حسن عسکری (ع) کی مظلومانہ زندگی

7:25 - October 15, 2021
خبر کا کوڈ: 3510428
امام وقت کے والدگرامی حسن عسکری کی دن رات کی کوششیں نہ ہوتیں تو ظالم حکام کی سیاست کی وجہ سے اسلام کا نام بھی ذہنوں سے مٹ جاتا۔

ایکنا نیوز کے مطابق ربیع الاول کی آٹھ تاریخ کو مختلف ممالک میں خاندان رسالت کے ماننے والے انکے نواسے اور امام عصر کے والد گرامی امام حسن عسکری کی شہادت کے حوالے سے غم مناتے ہیں اور اس موقع پر ایران اور عراق بالخصوص سامرا میں لاکھوں افراد حرم مطہر امام عسکری پر حاضری دیتے اور امام وقت کو پرسہ پیش کرتےہیں ، اس موقع پر تسلیت پیش کرتے ہوئے امام کی زندگی پر مختصر نظر ڈالتے ہیں۔

کنیت اور القاب:

 

امام حسن عسکری علیہ السلام کی کنیت "ابو محمد" ہے جبکہ مختلف کتب میں آپ (ع) کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں مشہور ترین "عسکری" ہے جس کا سبب شہر سامرا کے محلہ "عسکر" میں آپ (ع) کی رہائش یا بالفاظ دیگر "قلعہ بندی" ہے۔ "زکی" یعنی پاک و تزکیہ یافتہ، آپ (ع) کا دوسرا مشہور لقب ہے۔

 

علم و عبادت:

 

بے شک ہر امام معصوم (ع) کا علم منبع وحی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا اور حتی دشمنوں اور مخالفین نے تصدیق کی ہے کہ آئمہ علیہم السلام کا علم اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں سماتا۔ امام علیہ السلام کے احکامات، فرامین، اقوال اور دروس و پیغامات اور آپ (ع) سے منقولہ احادیث و روایات سے آپ (ع) کی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔

 

بزرگ عیسائی عالم بخت یشوع اپنے شاگرد بطریق سے کہتا ہے: "ابن الرضا ابو محمد عسکری کی طرف چلے جاؤ اور جان لو کو ہمارے زمانے میں آسمان تلے ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے اور خبردار! اگر وہ تمہیں کوئی حکم دے تو ہرگز اعتراض مت کرنا"۔

امام حسن عسکری (ع) کی مظلومانہ زندگی

آپ (ع) کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی۔ محمد شاکری نے روایت کی ہے کہ "میرے مولا اور استاد امام حسن عسکری علیہ السلام محراب عبادت میں سجدے میں چلے جاتے تھے اور آپ (ع) کا سجدہ اور ذکر و دعا کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوجاتا تھا کہ میں سوجاتا اور جاگ جاتا اور دیکھتا تھا کہ آپ (ع) ابھی سجدے کی حالت میں ہیں۔

 

امام حسن عسکری علیہ السلام کے سجدے رات کو فجر سے متصل کر دیتے تھے اور آپ (ع) کی عارفانہ مناجات ہر مردہ اور دنیا زدہ دل کو آسمانی حیات بخش دیتی تھی۔ آپ (ع) نے اپنے جد امجد امیر المؤمنین علیہ السلام کی مانند دنیا کو تین طلاقیں دی تھیں اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی صرف آخرت کا خانہ تعمیر کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

قید وبند اور سخت ترین نگرانی میں بمشکل اٹھائیس سال زندگی گزارنے کے بعد آٹھ ربیع الاول سنہ 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ اور مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیوں، نظر بندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ نا قدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کے سلسلے اختتام پذیر ہوئے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ایک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت اور آپ (ص) کی دو امانتوں (قرآن و عترت) کے انجام سے فکرمند، غریب الوطنی میں دشمن کے زہر جفا کی وجہ سے بستر شہادت پر درد کی شدت سے کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھی نہ بھولے اور نماز تہجد ابن الرسول (ص) لیٹ کر ادا کی وہ بھی شب جمعہ کو کہ جو رحمت رب العالمین کی شب ہے؛ وہی شب جو آپ (ع) کی پرواز کی شب ہے۔ نماز میں بہت روئے تھے شوق وصال کے اشک۔

 

زمین اور آسمان  کا سوگ:

 

آپ (ع) نے نماز فجر بھی اپنے بستر پر لیٹ کر ہی ادا فرمائی وہ بھی 28 سال کی عمر اور عین شباب میں، آپ (ع) کی آنکھیں قبلہ کی طرف لگی ہوئی تھیں جبکہ زہر کی شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھی طاری تھا۔ آپ (ع) کے لبوں سے بمشکل "مہدی" کا نام دہراتے رہے اور پھر مہدی آ ہی گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند مہدی کے سوا کوئی بھی کمرے میں نہ تھا اور راز و نیاز اور امانتوں اور وصیتوں کے لمحات تیزی سے گذر رہے تھے اور ابھی آفتاب طلوع نہیں ہوا تھا کہ گیارہویں امام معصوم کی عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمین پر سوگ و عزا کی کیفیت طاری ہوئی۔

 

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں

 

من وعظ اخاہ سراً فقد زانه و من وعظ علانیة فقد شانه

 

جو اپنے مومن بھائی کو تنہائی میں نصیحت کرتا ہے وہ اس کی شان بلند کر دیتا ہے اور جو علانیہ نصیحت کرتا ہے وہ اس برادر مومن کو رسوا کر دیتا ہے

۔(تحف العقول،ص۵۲۰)

 

 

ما اقبح بالمومن ان تکون له رغبة تذله

 

مومن کے لئے کتنا برا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی خواہش کرے جو اس کے لئے ذلت اور رسوائی کا سبب بنتی ہیں ۔

(تحف العقول،ص۵۲۰)

 

 

اقل الناس راحة الحقود

 

'کینہ رکھنے والے کو کبھی آرام نہیں ملتا ۔

(تحف العقول،ص۵۱۸)

 

 

جو شخص دنیا میں اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آئے گا،خدا کے نزدیک اس کا شمار صدیقین اور علی ابن ابی طالب(ع) کے شیعوں میں سے ھو گا

 

 

کثرت روزہ و نماز کو عبادت نھیں کھتے بلکہ امر خدا میں تدبر و تفکر کرنا عبادت ھے ۔

 

خدا وند عالم نے شر کے لئے بہت سے قفل قرار دئے ھیں۔ انکی کنجی شراب ھے اور جھوٹ بولنا شراب سے بھی بد تر ھے

 

لوگوں کی غلط عادتیں چھڑا دینا معجزہ سے کم نھیں ھے.

 

 

نظرات بینندگان
captcha