ایکنا نیوز- ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکے والدین مختلف حادثوں میں ان سے جدا ہوجاتے ہیں اور وہ بے یارو مددگار دارالامان مراکز میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یتیموں کا مسئلہ صرف مالی اور خوراک کی حد تک نہیں اگرچہ روٹی کپڑا اور مکان بہت اہم ہے لیکن اس سے بڑھ کر یتیموں کی رسیدگی، یعنی ان سے محبت اور مہربانی سے پیش آنا اور انکے والدین کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنا۔
انسان بچپن میں بہت زیادہ محبت کا محتاج ہوتا ہے اور اگر یہ محبت درست طریقے سے اس کو نہ ملے تو انکی آنے والے دور کی زندگی کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ممکن ہے کہ مسائل کی وجہ سے ایک نادرست شکل میں سامنے آئے۔
اسلام میں ایک اہم ترین معاشرتی مسئلہ یہی ہے کہ یتیموں کے ساتھ احترام اور محبت سے سلوک کیا جائے۔ روایت میں ہے کہ جب رسول گرامی اسلام(ص) کسی یتیم بچے کو دیکھتے تو اس کچھ وقت ضرور دیتے۔
قرآن کریم میں اس مسئلے پر بہت تاکید کی گئی ہے اور مومنین کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ یتیموں کو تکلیف یا پریشان کرنے سے سختی سے اجتناب کریں۔ «فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ/ اور تم [ہماری نعمتوں کے مقابل] يتيم کو تکلیف سے دوری کر» (ضحی/ 9).
اگرچہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یتیموں کی مالی مدد نہیں کرتے بلکہ انکی کمزوری سے نادرست فایدہ اٹھا کر انکے اموال پر قابض ہوجاتے ہیں، قرآن کریم ان یتیموں کے مال کھانے کو آگ سے تشبیہ دیتا ہے جو ان افراد کے اندر سے بھسم کرکے ختم کردے گی : «إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا:
جو یتیموں کے اموال ستم کے ساتھ کھاتے ہیں ان کے پیٹ میں آگ داخل ہوتی ہے اور بہت جلد یہ آگ بھڑک اٹھے گی۔.»(نساء/۱۰)