کیوں «انسان نقصان میں ہے »؟

IQNA

کیوں «انسان نقصان میں ہے »؟

8:14 - April 17, 2023
خبر کا کوڈ: 3514129
قرآن فرماتا ہے کہ کہ انسان ہر گزرنے والے لمحے سے نقصان اٹھاتا ہے اگر اس کو درست فروخت نہ کرے. لیکن ہماری حیات کی حقیقی قمیت کیا ہے؟

ایکنا- آیت‌الله سیدمصطفی محقق داماد، قرآنی نشست میں انسان کی قیمت اور نقصان بارے فرماتے ہیں:

اکیلی مخلوق انسان ہے جو اپنے عمل میں مجبور نہیں اور آزاد ہے، انسان جو اگرچہ وراثت اور ماحول کے تقاضوں پر تاحد اسیر دکھائی دیتا ہے تاہم اختیار رکھتا ہے اور جو انسان اپنی فطرت کی طرف لوٹ جائے تو اس کو زیادہ دلیل کی ضرورت نہ پڑے۔

 ہر انسان کے عمل کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک محسوس اور ایک غیر محسوس، انسان کا عمل وہی ہوتا ہے جو اس سے سرزد ہوتا ہے تاہم اس کا ایک پہلو اسکی نیت ہوتی ہے جو غیر محسوس ہے اور یہی اس کے عمل کی اساس ہوتی ہے۔

اس ایک جذبے اور خواہش کے تحت نیت اور ارادہ کرتا ہے اور پھر عمل انجام دیتا ہے لہذا نیت اس میں زیادہ اہم ہے جو انسان کی روح اور جان سے تعلق رکھتی ہے جو اس کے عمل کے معیار کا تعین کرتا ہے۔

اسی دلیل کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ عمل صالح ایسا عمل ہے جسکا سرچشمہ ایمان ہو یعنی نیت اور محرک ایمان سے نکلے اور الھی جذبہ اس کا عامل ہو۔

انجام عمل شایسته هوشیاری می‌خواهد، موقع‌شناسی می‌خواهد. خیلی از مومنین به دلیل عدم هوشیاری، کارهای ناپسند انجام می‌دهند و خیال می‌کنند عملشان عمل صالح است. افرادی انگیزه الهی دارند ولی مقتضیات محیط را تشخیص نمی‌دهند، به همین دلیل عملشان عمل صالح نیست. بنابراین ایمان تنها باعث عمل صالح نیست و شخص مومن با ذکاوت و تعقل عمل صالح را انجام می‌دهد. خلاصه آنکه عمل صالح شامل هر کار خوبی است که برای خدا انجام شود. پس آنچه در عمل صالح مهم است است که قصد انسان نزدیک شدن به خدا باشد.

 

جو عمل قرب خدا کی نیت سے کیا جائے عبادت ہے

عبادت فقط نماز و روزه نہیں بلکہ جو عمل قرب خدا کی نیت سے انجام دیا جائے عبادت ہے ایسے عمل کو عبادت میں شمار کیا جاتا ہے اس کے برعکس اگر عمل خدا کے لیے نہ ہو تو نہ صرف عبادت نہیں بلکہ عذاب الھی کا باعث بنتا ہے۔

عرفا کے نزدیک عمل صالح اور ایمان کی نسبت  درخت اور فروٹ کی نسبت ہے اگر درخت کا پھل نہ ہو تو بے فائدہ ہے۔

فخر رازی اس آیت «إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ؛ »(عصر، 2-3) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ میں کافی عرصے تک لفظ " خسر" کے معنی کو درک نہیں پارہا تھا ایک دن بازار میں جارہا تھا کہ ایک برف فروش کو دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ اگر مجھ سے نہ خریدوں گے تو میں خسران میں ہوگا یعنی نقصان اٹھاونگا اس وقت مجھے سمجھ آیا کہ جس کا سرمایہ نکل جایے اور فایدہ نہ ملے تو وہ نقصان میں ہوگا۔

قرآن کہتا ہے جس انسان کا لمحہ بہ لمحہ نکلتا جائے اور اس کو فایدہ نہ ملے تو وہ نقصان میں ہے  اور انسان کی عمر کی قیمت ایمان اور عمل صالح ہے، حضرت ابراہیم خدا سے یوں طلب کرتا ہے کہ اے رب مجھے ایسی حکمت دے کہ میں تجھے جان لو، دنیا کی شناخت ملے، دنیا کی معرفت مل جایے تاکہ مجھے صالحین سے ملحق کردے جو عملی حکمت ہے۔

 

حکمت عملی ایسی آگاہی ہے جو انسان کو اپنے عمل کے مقصود سے متعارف کراسکے، انکی دعا جامع دعا ہے جو حکمت نظری اور حکمت عمل کو شامل ہوتی ہے۔/

نظرات بینندگان
captcha