ایکنا نیوز- خدا کی جانب سے ہنسانا ایک فطری امر ہے جو اسٹریس اور ڈپریشن وغیرہ کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
انسان دوسرے کو ہنسا کر خود بھی خوش ہوتا ہے تاہم اس میں افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے
انسان کو ایک حد کے اندر رہ کر ایسی صفت سے مزین ہونے کی ضرورت ہے تاہم اگر اس پر باریکی سے توجہ نہ دی جائے تو ایک اختلاف اور ناراضگی جنم لے سکتی ہے۔
قرآن کریم میں اس حوالے سے کافی آیات موجود ہیں جیسے :« إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ ؛ برے لوگ [مذاق کے ساتھ ] کے ساتھ جب وہ مومنین کا مذاق اشاروں میں اڑاتے ہیں جب وہ گھروں کو لوٹتے ہیں [مذاق کی وجہ سے] ہنسی خوشی آتے ہیں»(مطففین: 29 الی 31).
مفسرین کے مطابق لفظ «فکهین» جو آیت 31 میں آیا ہے ہنسنا اور مذاق اڑانا ہے۔
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کفار ہمیشہ مومنین پر ہنستے تھے انکا مذاق اڑاتے اور جب مومنین کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں اور آئی برو سے اشارہ کرتے اور گھر واپس آکر اس کو فخر سے بیان کرکے ہنستے تھے۔
ہنسنا اور ہنسانا برا نہیں اور اگر اس آیت میں بات آئی ہے اس وجہ سے ہے کہ کفار اور لادین مومنین پر ہنس کر انکی تذلیل کرتے اور انکی غیبت کرکے یا تہمت کے ساتھ ان سے سلوک کرتے لہذا ایسا کرنا ناپسندیدہ ہے۔
لیکن ہنسنا اور ہنسانا بری صفت نہیں جیسے ہم سیرت رسول اللہ (ع) میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے۔/