برادرى
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: مؤمنین ایک دوسرے کے بھائی ہیںں: «انّما المؤمنون اخوة»( حجرات، ۹)
ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے: جب کبھی تمھارے مخالف توبہ کریں اور نماز ادا کرے اور زکات دیں ، تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں
: «فان تابوا و اقاموا الصلوة و اتوا الزكاة فاخوانكم فى الدین»( توبه، ۱۱) پس شرط برادرى، توبه و نماز کے ساتھ زکات کی ادائیگی ہے۔
كینه دور کرنا
زكات کی ادائیگی سے محروم طبقے کا کینہ دور ہوکر محبت میں بدل جاتا ہے اور یہ محبت و دوستی تعلقات میں اضافے اور تعاون کا باعث بنتی ہے۔
کمزور طبقے کو اجتماع میں لانا
افلاس و بھوک، انسان کو گوشہ نشین بناتے ہیں اور نا امیدی اور بدگمانی کا سبب بن جاتے ہیں تاہم جب خمس و زکات ادا ہوتے ہیں تو لوگوں کی مالی مشکلات میں کمی ہوتی ہے اور لوگوں میں شوق ودلسوزی اور معاشرے میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔
معاشرے میں برادری
زکات کی ادائیگی دلوں کو قریب کرتی ہے اور معاشرے میں مشکلات کا حل آسان ہوتا ہے اگر فقرا خود کو اغنیا کا امور میں شریک سمجھیں تو وہ تمام مشکلات کے حل کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔
فقر کم کرنا
معاشرے میں ایک اہم کام فقر و افلاس کم کرنا ہے اور اس میں ایک اہم کام خمس و زکات کی ادائیگی ہے۔
جاب ایجاد کرنا
معاشرے کی ایک بڑی مشکل بیکاری ہے جس سے کافی فسادات جنم لیتے ہیں اگر لوگ خمس و زکات ادا کریں تو کافی جاب ایجاد ہوسکتے ہیں اور مختلف تعلیمی و ٹیکنکل تعلیمی کام ہوسکتے ہیں جس سے کام کے مواقع پیدا ہوں گے ۔
قرآن میں «لاتلقوا بأیدیكم الى التّهلكة»( بقره، ۱۹۵) کا حکم انفاق کی ادائیگی کے بعد کہا گیا ہے۔
جی ہاں اگر معاشرے میں خمس و زکات سے لوگ ہاتھ کھینچ لیں تو فقرا پر دباو بڑھے گا جس سے مسایل پیدا ہوں گے اور سب کے لیے درد سر میں اضافہ ہوگا۔
اجتماعی فسادات میں کمی
معاشرے میں دولت کی فراوانی بھی مسائل پیدا کرتی ہے اور خمس و زكات کی ادائیگی اس کو متعدل کرسکتی ہے اور اسی طرح شدید فقر سے بھی رشوت و خیانت کے مسائل ہوں گے لہذا اگر خمس و زکات ادا ہو تو ایک اعتدال پیدا ہوگا۔
فقرا کا عزت نفس
بہت سے امور میں ناداری انسان کا عزت نفس مجروح ہوجاتا ہے اور خمس و زکات کی ادائیگی فقر کو کم کرسکتی ہے اور انسان کا عزت نفس محفوظ ہوگا۔
سرمایے میں اعتدال
خمس و زكات دولت کی تقسیم کو معتدل بناتے ہیں،
اسلام ایک طرف مضبوط، محنتی اور تخلیقی افراد کو آگے بڑھے کا موقع فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب سود، چوری، رشوت اور کرپشن کو منع کرتا ہے اور فضول خرچی سے بھی روکتا ہے اور اسی طرح زکات و خمس پر تاکید کرتا ہے اور ساتھ میں صدقہ اور انفاق کی بات کرتا ہے تاکہ علم و ارادے کے ساتھ عشق و محبت سے ایکدوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔/
قوى، مبتكر، پركار و خلاّق را در مالكیّت باز گذاشته تا مانع رشد آنان نشود و از سویى درآمدهایى از قبیل ربا، سرقت، رشوه، اختلاس و... را ممنوع دانسته است و از سوى دیگر به مالكین درآمدهاى حلال اجازه نمىدهد تا درآمد خود را هرگونه كه خواستند مصرف كنند و آنان را از اسراف و تبذیر و ثروتاندوزى نهى فرموده است و از طرف دیگر با واجب نمودن خمس و زكات و كفّارات و سفارش اكید به انواع كمكها و صدقات، بخشى از اموال آنان را با علم، اراده، عشق و ایمان براى حل مشكلات طبقه محروم گرفته است.