ایکنا نیوز- جس طرح سے فھم و سمجھ کو سب تسلیم کرتا ہے اور اس کے لیے وسیلے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے دو چیزوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے:
عقل و دلیل تربیت میں اہم ترین عوامل ہیں جس سے ایک مربی مدد لیتا ہے اور شاگرد کی تربیت کرتا ہے۔ عقل عام طور پر دلیل سے کام لیتی ہے ۔
حضرت نوح(ع) بھی استدلال(دلیل) سے اپنی قومی کی تربیت کے لیے کام لیتے تھے اور انکے لیے انسان کی خلقت ، زمین و آسمان بنانے کی مثال پیش کرتے تاہم وہ ان مستحکم دلیلوں کو بھی نہ مانتے تھے ۔
حضرت نوح کی چند دلیلوں کی مثال دیکھیے:
نوح نبی(ع) انسان کی اول خلقت بارے فرماتے ہیں: «مَا لَکُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَارًا ؛
کیوں خدا کی عظمت کے لیے قایل نہیں ہوتے؟ حالانکہ اس نے تمھیں مختلف مراحل میں خلق کیا ہے».
نوح(ع) اس جملے میں کہہ سکتا تھا کہ اس نے تمھیں خلق کیا ہے اور مراحل کا ذکر نہ کرتے، تاہم یہ خدا کے خالق ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ انسان مختلف مرحلوں میں خلق ہوا ہے، قرآن کے مطابق انسان نطفہ، علقہ اور مضغہ کے مراحل سے ہوتا ہوا گوشت و ہڈی تک پہنچتا ہے اور پھر گوشت پر جلد سے ڈھانپ دیا جاتا ہے.(مومنون: 14)
2 آسمانوں کی خلقت
حضرت نوح کی ایک اور دلیل سات آسمانوں کی خلقت ہے. فرماتے ہیں: «أَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ؛ کیا نہیں جانتے کہ کیسے اس نے سات آسمانوں کو ایکدوسرے پر بنایا ہے ؟»
ظاہر سی بات ہے کہ اگر تمام انسان یکجا جمع ہوجائے تو بھی اس ایک آسمان کو نہیں خلق بنا سکتے پھر وہ کیسے ان بتوں کو جو انسان بھی کمزور تر ہے انکو خدا بتاتے ہیں؟؟