ایکنا نیوز، القدس العربی نیوز کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی پارلیمنٹ (کنست) نے ایک مسودہ قانون منظور کیا ہے جس کے تحت 1948 کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور مشرقی یروشلم میں عرب اساتذہ کے ساتھ ناروا سلوک میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس قانون کا مقصد فلسطینی معلمین پر مزید پابندیاں عائد کرنا ہے تاکہ فلسطینیوں میں قومی شعور، وابستگی، پائیداری اور مزاحمت کا جذبہ کمزور کیا جا سکے۔
یہ قانون اسرائیلی وزارت تعلیم کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ان اساتذہ کو برطرف کر سکے جو کسی بھی صورت میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ اس طرح یہ قانون اسرائیل کی نسل پرست پالیسی کے تحت فلسطینیوں کی تمام قومی سرگرمیوں کو محدود کرتا ہے۔
مزید برآں، اس قانون کے مطابق وزارت تعلیم ان اسکولوں کی سرکاری فنڈنگ روک سکتی ہے جو کسی طرح دہشت گردانہ سرگرمیوں یا تنظیموں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے قانون کی آزادانہ تشریح کے دروازے کھل جاتے ہیں، جس کا مقصد فلسطینی اسکولوں پر پابندیاں مزید سخت کرنا ہے۔
یہ مسودہ قانون "پاور آف جوڈائزم" پارٹی کے رکن زویکا ووگل کی طرف سے پیش کیا گیا، جس کی قیادت ایتامار بن گویر، وزیر برائے داخلی سلامتی، کرتے ہیں۔ ووگل نے اس قانون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "تعلیم بہت سے دہشت گردانہ حملوں کا بنیادی عنصر ہے۔
حاکم اتحادی جماعتیں، جن میں دائیں بازو، قوم پرست اور مذہبی جماعتیں شامل ہیں، اس قانون کی حمایت میں متحد ہیں۔ یہ قانون کنست کی تیزی سے بڑھتی ہوئی نسل پرستی کی سمت کی ایک اور مثال ہے۔
اسرائیلی کنست، جسے مغربی دنیا میں "مشرق وسطیٰ کا واحد جمہوری مرکز" سمجھا جاتا ہے، نے حال ہی میں ایک قانون بھی منظور کیا ہے جس کے تحت مزاحمت کاروں کے اہل خانہ کو 1948 کے مقبوضہ علاقوں، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ یہ قانون اجتماعی سزا کی شدید ترین شکل ہے۔
کنست نے ایک اور قانون بھی منظور کیا ہے جس کے تحت غیر ملکی ممالک کو یروشلم میں نئے قونصل خانے قائم کرنے سے روکا گیا ہے۔ یہ قانون اسرائیل کے مرکزی قانون کے مطابق ہے جو یروشلم کو اسرائیل کا "واحد اور غیر منقسم دارالحکومت" قرار دیتا ہے۔
اس قانون سے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ یہ ممالک کے خود مختار حق کو بھی محدود کرتا ہے کہ وہ اپنی سفارتی ترجیحات کا انتخاب کر سکیں۔
اس کے علاوہ ایک تیسرا قانون بھی منظور ہوا ہے جو فلسطینی افراد اور سیاسی جماعتوں کے کنست انتخابات میں حصہ لینے پر کڑی پابندیاں عائد کرتا ہے اور اسرائیلی پولیس کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی اطلاع کے بغیر ان کے کمپیوٹر اور موبائل ڈیوائسز تک رسائی حاصل کرے۔
اسرائیلی کنست میں لیکود پارٹی کے رکن آمیت ہالیوی نے اس قانون کے حوالے سے کہا، "ایک بم خود سے نہیں بنتا اور پھٹتا، بلکہ اس کے اجزاء دماغ اور دل میں تیار ہوتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "ایک خیال ہزار ٹینکوں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔"
یہ سبق تاریخ میں بارہا ان قوموں کے حوالے سے دیکھا گیا ہے جو استعماری طاقتوں، قابضین اور نسل پرستوں کے زیر قبضہ رہی ہیں۔ ہر قومی مزاحمتی تحریک نے اسے سچ ثابت کیا ہے، اس لئے نہیں کہ یہ خیال ایک ٹائم بم ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
4246691