ایکنا نیوز، ایلاف نیوز کے حوالہ سے "ٹائمز آف اسرائیل" نے ایک مضمون میں یہ سوال اٹھایا کہ: "کیا شام میں مسیحی برادری کم ہوتی ہوئی تعداد کے باوجود نئے حکومتی نظام میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے؟ اور وہ مسیحی جو اسد حکومت کے وفادار تھے، کیا وہ نئے اسلام پسند حکمرانوں کے وعدوں پر اعتماد کر سکتے ہیں؟" مضمون میں تحریر الشام کے زیر سایہ شام میں مسیحیوں کی زندگی کے مستقبل پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
تحریر الشام، جو ایک شدت پسند سنی تنظیم ہے، کے تیزی سے اقتدار سنبھالنے نے شام میں اقلیتی مسیحی برادری کے مستقبل کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، شام میں 2011 سے قبل، جنگ شروع ہونے سے پہلے، مسیحیوں کی تعداد تقریباً 15 لاکھ تھی جو ملک کی کل آبادی کا 10 فیصد تھے۔ لیکن ایک دہائی کے اندر یہ تعداد گھٹ کر 2022 میں صرف 3 لاکھ رہ گئی، جو کل آبادی کا تقریباً 2 فیصد ہیں۔
شام میں مسیحی طبقہ عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ اور خوشحال تھا، لیکن داعش کے خطرے اور شام کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال سے بچنے کے لیے انہوں نے اجتماعی طور پر ہجرت کی۔
تحریر الشام کے رہنماؤں نے بارہا یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام اقلیتوں، بشمول شیعہ، علوی، دروزی، کرد، اور دیگر کو تحفظ دیا جائے گا۔ نئے وزیرِ اعظم محمد البشیر نے جلاوطن پناہ گزینوں کو وطن واپسی کی دعوت دی اور تمام مذاہب اور عقائد کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ کیا۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا بحران زدہ شام، جیسا کہ اس کے نئے حکمران دعویٰ کرتے ہیں، ایک بار پھر تمام مذاہب اور عقائد کے لیے سازگار مقام بن سکتا ہے۔ واشنگٹن میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم نے شام میں ہزاروں سال سے موجود مسیحیوں کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حلب میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے اور تحریر الشام کے قبضے کے بعد، مسیحی برادری خوف میں زندگی گزار رہی ہے اور ان پر مظالم اور املاک کی تباہی کے الزامات ہیں۔ تاہم، نیویارک کی ایک غیر منافع بخش تنظیم نے رپورٹ دی کہ حلب کے مسیحی، جو شروع میں خوفزدہ تھے، اب محسوس کرتے ہیں کہ کلیسا معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
13 سالہ خانہ جنگی کے دوران، مسیحیوں نے زیادہ تر اسد حکومت کی حمایت کی کیونکہ اسد نے خود کو اقلیتی مذہبی گروہوں کا محافظ ظاہر کیا۔
2015 میں احمد الشرع (جو ابومحمد الجولانی کے نام سے مشہور تھے) نے کہا تھا کہ اگر تحریر الشام پورے شام پر قابض ہو جائے تو وہاں اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے۔
نہ صرف مسیحی بلکہ معتدل سنی بھی اس صورتحال سے خوفزدہ ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر شام میں طالبان طرز کا نظام نافذ ہوا تو ابتدائی طور پر مسیحیوں کو نشانہ بنایا جائے گا، لیکن بعد میں معتدل سنی بھی اس تبدیلی کا شکار ہوں گے۔
وسیم نصر، جو 2023 میں ادلب گئے، نے رپورٹ کیا کہ وہاں موجود مسیحیوں کو مذہبی رسومات کی اجازت ہے، لیکن وہ صلیبوں کی نمائش یا گرجا گھروں کے گھنٹے بجانے سے منع ہیں۔/
4255965