ایکنا: توکل کا مطلب کسی کو وکیل بنانا اور کسی کام کو اس کے سپرد کرنا ہے، لیکن بہت سے لغت دانوں کا ماننا ہے کہ عربی زبان میں توکل کا مطلب کسی کام میں اپنی عاجزی ظاہر کرنا اور دوسرے پر بھروسا کرنا ہے۔ اسی مادہ کے استعمالات میں "وَکَل" اور "وُکْلَه" شامل ہیں، جو ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو عاجز ہو اور اپنا کام کسی اور کے سپرد کر دے، یا "وَکِل" جو ایک بزدل، کمزور اور کم عقل شخص کے لیے بولا جاتا ہے۔
راغب اور ابن منظور کے مطابق، اگر "وکل" حرف "لام" کے ساتھ استعمال ہو تو اس کا مطلب ولایت قبول کرنا ہوتا ہے، اور اگر "علی" کے ساتھ آئے تو اس کا مطلب عاجزی ظاہر کرنا اور کسی اور پر بھروسا کرنا ہوتا ہے۔ فخرالدین اپنی کتاب مجمع البحرین میں لکھتے ہیں کہ توکل کا مطلب کسی کام میں اپنی عاجزی اور بے بسی ظاہر کرنا ہے، اور اس کا اسم "تکلان" ہے۔ "التوکل علیالله" کا مطلب یہ ہے کہ بندہ مخلوق سے تمام تعلقات منقطع کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور وہ سب کچھ اسی سے طلب کرے جس کی وہ مخلوق سے امید رکھتا تھا۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ توکل کا مطلب کسی ایسے کام میں سعی و کوشش ترک کر دینا ہے جس کا دائرہ انسانی طاقت سے باہر ہو۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ معانی قرآن کے نزول کے بعد کے ادوار سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ سامی زبانوں کے تاریخی مطالعے اور لسانی تجزیے کے مطابق، "وکل" کا مادہ قدیم سامی زبانوں میں دو معانی رکھتا تھا۔ عبرانی اور آرامی زبانوں میں "وکل" کا مطلب قوت اور قدرت رکھنا تھا، اسی لیے "وکیل" ایسے شخص کو کہا جاتا تھا جو کسی کام میں ماہر اور باخبر ہو۔ جبکہ آرامی، سریانی، اکدی اور حبشی زبانوں میں اس کا مطلب اعتماد اور بھروسا کرنا تھا۔
دیگر الفاظ میں، توکل کا مطلب اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے عالم میں کردار کی معرفت پر مبنی ہے، نہ کہ محض انسانی عاجزی کے اظہار پر۔ اصطلاحی طور پر، توکل کا مطلب اللہ پر بھروسا کرنا، لوگوں سے مایوس ہو جانا، اللہ کے آگے سر تسلیم خم کرنا اور صرف اسی پر اعتماد کرنا ہے۔ معانی الأخبار کے مصنف کے مطابق، "التوکل علی اللہ" کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جان لے کہ مخلوق نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، نہ نفع دے سکتی ہے، نہ کچھ عطا کر سکتی ہے اور نہ کسی عطا کو روک سکتی ہے۔ لہٰذا، متوکل شخص مخلوق سے ناامید ہوتا ہے، اللہ کے سوا کسی کے لیے کام نہیں کرتا، اور اس کے علاوہ کسی سے امید یا طمع نہیں رکھتا۔