ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق برطانیہ کی وست منسٹر ابتدائی عدالت نے پیر، 12 خرداد (مطابق 2 جون) کو ایک شخص کو قرآن مجید کو ترکی کے قونصلیٹ کے سامنے نذر آتش کرنے کے جرم میں "مذہبی اور عوامی نظم کو خراب کرنے والا جرم" قرار دے کر سزا سنائی ہے۔ جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ گویا توہینِ مذہب کے قوانین کی واپسی کی علامت ہے۔
حمید جوشکون نامی 50 سالہ شخص کو 325 امریکی ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی ہے۔ وہ رواں سال فروری میں لندن کے مرکز میں ترکی کے قونصلیٹ کے قریب قرآن مجید کو نذر آتش کرتے ہوئے اسلام مخالف نعرے لگا رہا تھا۔
جوشکون کے وکلا نے عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ اس قانون کی واپسی کی کوشش ہے جو 2008 میں برطانیہ میں توہینِ مقدسات کے خلاف ختم کر دیا گیا تھا۔
جوشکون نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ یہ اقدام اس نے ترکی کی حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جج جان مک گاروا نے کہا:
"کسی مذہبی کتاب کو جلانا اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے توہین آمیز ہو سکتا ہے، لیکن یہ عمل بذات خود ضروری نہیں کہ انتشار انگیز ہو۔"
جج نے مزید کہا کہ "جو چیز جوشکون کے عمل کو انتشار انگیز بناتی ہے، وہ اس کا وقت، جگہ، اور اس کے ساتھ استعمال ہونے والے توہین آمیز الفاظ ہیں۔" انہوں نے کہا: "ایسا کوئی جواز موجود نہیں تھا کہ وہ 'لعنت' جیسے الفاظ استعمال کرے اور اسے اسلام سے جوڑ دے۔"
عدالت کے مطابق، یہ عمل بہت اشتعال انگیز تھا اور ایک مذہب کے پیروکاروں سے نفرت کے تحت کیا گیا۔
برطانیہ کی نیشنل سیکولر سوسائٹی، جس نے جوشکون کی قانونی معاونت میں مدد فراہم کی، نے اس فیصلے کو آزادی اظہار رائے پر بڑا حملہ قرار دیا۔ برطانوی کنزرویٹو پارٹی نے بھی اس دعوے کی تائید کی۔
یاد رہے کہ فروری میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں جوشکون لندن میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو جلاتے دکھایا گیا تھا، اور ایک شخص نے اس حرکت کو روکنے کی کوشش میں اس پر حملہ کیا۔
جوشکون نے پہلے بھی اپنے اوپر لگے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام اُس کا ترکی کی اسلام پسند حکومت (اردوغان) کے خلاف ایک پرامن احتجاج تھا اور یہ اس کی آزادی اظہار رائے کے دائرے میں آتا ہے۔
یہ مقدمہ آزادی اظہار رائے اور توہینِ مذہب کے قوانین کی حدود پر ایک وسیع بحث کا باعث بنا ہے، اور ناقدین نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ برطانیہ میں توہینِ مقدسات کے قوانین عملاً واپس آ رہے ہیں۔/
4286264