ایکنا نیوز- الفرقان نیوز کے مطابق تیونس کے تاریخی شہر قیروان کی قدیم لائبریری میں قرآنِ مجید کے نایاب دستی نسخے محفوظ ہیں، جو چمڑے اور جانوروں کی کھالوں پر تحریر کیے گئے ہیں اور اوائل اسلامی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مجموعہ، یمن کے جامع مسجد صنعاء سے مصاحف و طوماروں کی دریافت سے قبل، ابتدائی اسلامی دور میں فنِ کتابت کے مطالعے کا واحد معتبر ماخذ سمجھا جاتا تھا۔
· فرانسیسی مستشرق جورج مارسی اور آثار قدیمہ کے ماہر لویی پوانسو نے قیروان لائبریری کے قدیم نسخوں پر گہری تحقیق کی، جس سے ان نسخوں کی فنّی خصوصیات کو شناخت کرنے اور دستاویزی شکل دینے میں مدد ملی۔
· ان کی تحقیق کا مرکز قیروانی مصحفوں سے الگ تھا، لیکن ان نسخوں کے فنّی پہلو نمایاں کیے گئے۔
· مزید یہ کہ بعض قدیم دستاویزات، جن میں تاریخ درج نہیں، مثلاً قیروانی مصحفوں پر پرانے رپورٹیں اور خاص طور پر شیخ بکر بن ابراہیم الاشبیلی کی کتاب "التيسير في صناعة التسفير" سے یہ جاننے میں مدد ملی کہ چمڑے کی تیاری کے مراحل کیا تھے اور اس کے متعلق فنّی و لغوی اصطلاحات کیا تھیں۔
· 10ویں اور 11ویں صدی عیسوی میں افریقی خطے میں چمڑے کی صنعت عروج پر تھی، اور قیروان کی چاندی و ریشم سے مزین زینیں یورپ کو برآمد کی جاتی تھیں۔
· تمام قرآن اور دفتری کتب چمڑے پر لکھے جاتے تھے۔
· اندلس کے لوگوں نے کتابت کے یہ ہنر افریقہ سے سیکھے، اور اس دور میں افریقہ فنِ کتابت کا اہم مرکز بن گیا تھا۔ یہاں سے کتابت کا سامان مشرق و اندلس کو برآمد ہوتا تھا۔
· افریقہ میں کتابتِ مصحف کا فن پروان چڑھا اور کئی ماہر کاتب پیدا ہوئے۔
· ان میں احمد بن علی وراق کا نام خاص طور پر مشہور ہے، جنہوں نے سال 410 ہجری / 1020 عیسوی میں ایک شہزادے کے لیے مکمل مصحف خود کتابت، اعراب گذاری، تذهیب اور جلد کیا۔
· انہوں نے اس مصحف پر خود تحریر کیا: "یہ مصحف احمد بن علی وراق نے 410 ہجری میں لکھا، اعراب لگائے، مزین کیا اور جلد بند کی۔"
· قیروانی طومار بیسویں صدی کے اوائل میں جامع مسجد قیروان کے ایک چھوٹے کمرے میں دریافت ہوئے۔
· بعد ازاں یہ باردو عجائب گھر میں محفوظ کیے گئے۔
· سن 1985ء میں اس عجائب گھر کے ایک بڑے حصے کو "اسلامی تہذیب و فنون کا مرکز" بنا دیا گیا۔
· فی الحال ان طوماروں کی کچھ نایاب مثالیں باردو نیشنل میوزیم، رقادہ میوزیم اور موناستیر میوزیم میں محفوظ ہیں۔/
4266744