
ایکنا نیوز، الجزیرہ نے رپورٹ کیا ہے کہ شروق مرار کا قرآنی سفر دو سال قبل اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے غزہ پر جنگ مسلط کی تھی۔ اس نے غزہ کے قرآن حافظوں سے، جو مصائب کے باوجود حفظِ قرآن میں مشغول تھے، حوصلہ اور الہام حاصل کیا۔
شروق نے بتایا: میں نے دیکھا کہ غزہ کے لوگ دکھ اور درد کے باوجود قرآن حفظ کر رہے ہیں، تو میں نے خود سے کہا: اگر وہ کر سکتے ہیں تو میں بھی کر سکتی ہوں۔
شروق نے فیصلہ کیا کہ وہ کینسر کے طویل علاج کے دوران قرآن کو اپنا ہمسفر بنائے گی۔ وہ الْمُطَّلِع ہسپتال (قدسِ اشغالی) کے راہداریوں میں، کیموتھراپی اور ریڈیوتھراپی کے سیشنز کے انتظار کے دوران قرآن کی آیات یاد کرتی رہتی۔ وہ ان لمحات کو تلاوت، دہرائی اور حفظ میں صرف کرتی تھی۔
شروق کا کہنا تھا: قرآن میرا دائمی علاج اور راہ کا ساتھی رہا۔
تین بچوں کی ماں شروق نے کینسر کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ یہ بیماری اس کے عزم کو کمزور کرنے کے بجائے، قرآن کے ساتھ اس کی وابستگی کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنی۔

اس نے کہا: قرآن جیسا سکون دل کو کوئی چیز نہیں دے سکتی، اور روح کے لیے اس کی آیات سے بڑھ کر کوئی شفا نہیں۔ میں ہر اُس شخص کو نصیحت کرتی ہوں جو مشکل حالات سے گزر رہا ہے کہ قرآن کو اپنی دوا اور ہمیشہ کا ساتھی بنا لے۔

جب شروق کی والدہ اکرام داوود کو معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی نے پورا قرآن حفظ کر لیا ہے تو وہ اپنی خوشی کے آنسو نہ روک سکیں۔ انہوں نے کہا: جب شروق نے بتایا کہ اس نے پورا قرآن حفظ کر لیا ہے، تو میں خوشی سے رو پڑی۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت انعام ہے۔ میں نے ہمیشہ اُسے حوصلہ دیا، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، اور خدا کا شکر ہے کہ اُس نے اسے مدد اور ہدایت عطا کی۔/
4314943