قدرتی وسائل میں معاشرے کا حصہ؛ تعاون کا محور

IQNA

تعاون قرآن کریم میں/6

قدرتی وسائل میں معاشرے کا حصہ؛ تعاون کا محور

6:08 - October 29, 2025
خبر کا کوڈ: 3519397
ایکنا: مال و دولت دراصل اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے جو انسان کو بطور امانت عطا کی گئی ہے، قدرتی وسائل بھی تمام افرادِ معاشرہ کی ملکیت ہیں اور ان پر سب کا حق ہے۔

ایکنا نیوز- قرآنِ کریم فرماتا ہے: "وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ" "اور زمین کو اُس نے تمام مخلوقات کے لیے بچھا دیا" (الرحمن: 10)

اور ایک اور مقام پر فرمایا: "هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا" "وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے، سب تمہارے لیے پیدا کیا" (البقرہ: 29)

لہٰذا قدرتی وسائل چاہے وہ ایسے ہوں جنہیں نکالنے یا تیار کرنے کی ضرورت ہو یا ایسے جو بغیر محنت کے میسر ہوں ، بنیادی طور پر تمام انسانوں کے مشترکہ حق میں شامل ہیں۔

احادیث میں بھی بعض وسائل کو مشترکات اور مباحات (سب کے لیے عام) قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "الناس شركاء في ثلاث: الماء، والنار، والكلأ" ترجمہ: لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، آگ اور چراگاہ۔

ممکن ہے کہ اناج پر زکوٰۃ واجب ہونے کی ایک حکمت یہ ہو کہ اناج کی پیداوار کے لیے پانی درکار ہوتا ہے، اور پانی ایک مشترکہ نعمت ہے۔ لہٰذا جو شخص اس نعمت سے فائدہ اٹھا کر پیداوار حاصل کرتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اُن لوگوں کا بھی حصہ ادا کرے جو اس نعمت سے براہِ راست فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: "وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ" ترجمہ:اور ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم کا حق ہے۔ (الذاریات: 19)

اسی طرح بعض احادیث میں اغنیاء کے مال میں فقراء کے شریک ہونے کا تصور بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت علیؑ نے مسلمانوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنے مال و دولت میں محتاج مسلمانوں کو شریک کریں۔

یہ بات ظاہر ہے کہ شراکت میں دونوں فریق رضامندی اور باہمی احترام کے ساتھ استفادہ کرتے ہیں۔ لہٰذا "شراکت" کا تصور اس اصول کو مضبوط بناتا ہے کہ محتاج لوگ مالداروں کے مال میں (شریکوں کی طرح) حق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی مالدار شخص اپنی دولت کا کچھ حصہ کسی نادار کو دیتا ہے تو وہ دراصل اُس کا حق ادا کرتا ہے، احسان نہیں کرتا۔ اسلام کا یہ نقطۂ نظر معاشرتی تعاون اور باہمی ہمدردی کے تصور کی گہرائی اور مضبوطی کو واضح کرتا ہے۔/

نظرات بینندگان
captcha