ایکنا نیوز- ڈان نیوز- رائٹرز کی ٖفوٹوگرافر اولیویا نے برطانیہ میں مقیم مسلم خواتین کی تصاویر لی ہیں اور ان سے اسکارف کے بارے میں خیالات جاننے کی کوشش کی ہے۔
بیشتر مسلم خواتین پردہ یا اسکارف کا استعمال اپنے عقیدے کے مطابق کرتی ہیں۔ ایک عام سا خیال ہے کہ اکثر خواتین جو دین اسلام پرعمل پیرا ہیں کو پردہ کرنے کے حوالے سے معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اکثر مسلم خواتین کا کہنا ہے کہ وہ یہ سب اپنے جسموں کو اچھے سے ڈھانپنے کیلئے کرتی ہیں۔
جب جواں سال ثمرین فاروق کو لندن کی گلیوں میں ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا تو اس 18 سالہ لڑکی نے اسکارف اور پردہ اُوڑھنے کا اصولی فیصلہ کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے اسکارف میں باہر جا کر کچھ بھی کرنے میں آسانی ہے۔
ثمرین مشرقی لندن میں قائم اسلامک یوتھ سینٹر میں رضا کار کے طور پر کام کرتی ہیں۔
دس سالہ ثناء اسلامک اسکول میں اسکارف پہن کر جاتی ہے۔
ثناء کی والدہ دلیلہ کہتی ہیں کہ ہوسکتا ہے ثناء آئندہ سال سے ہی روزانہ کی بنیاد پر اسکارف پہننا شروع کردے اور اس بات کا فیصلہ وہ خود ہی کرے گی کہ اس کو مستقل اسکارف کب سے پہننا ہے۔
ہانا 12 سال کی عمر سے فل ٹائم حجاب کر رہی ہے اور اس حوالے سے اس کو خاندان کی جانب سے مکمل حمایت حاصل ہے اس لئے ہانا کو فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی ہے۔
ہانا کا کہنا ہے کہ مجھے اسکارف کے استعمال کے بعد کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی ہے سوائے اس کے کہ اس کا تعلق اس کے خدا سے بہتر ہوگیا ہے۔
بارہ سالہ وجیہہ اور گیارہ سالہ افشاں نے آٹھ سال کی عمر سے حجاب لینا شروع کیا تھا، دونوں اسکارف اس لیے پہنتی ہیں کہ ان کی مذہبی تمیز کی جاسکے اور وہ اپنی حفاظت کر سکیں۔