ایکنا نیوز- شفقنا-آنحضرتؐ نے آپؐ کے بارے میں ہی ارشاد فرمایا کہ:
قرآن علی {ع} کے ساتھ ہے علی قرآن کے ساتھ ہیں۔
فرمایا: اے علی! جیسے میں نے تنزیل قرآن پر جنگ کی ہے تم تاویل قرآن پر جنگ کرو گے۔
حضرت علی ہی کا کلام دیکھ کر علمائے عرب بے ساختہ کہتے ہیں:
کلام الامام امام الکلام
امام کا کلام، کلام کا امام ہے۔
نہج البلاغہ کے بارے میں نامور علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ
تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق
یہ خالق کے کلام سے کم تر لیکن مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے۔
یہ کتاب عالم اسلام کی عظیم الشان درس گاہوں اور جامعات میں شاملِ درس ہے۔ عالم اسلام کی بلکہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر میں آج بھی نہج البلاغہ شامل نصاب ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زندہ زبان میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔ مستند اور عظیم شیعہ سنی علماء نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔ اس کے ترجمے، تشریح اور تدریس کا سلسلہ پوری دنیا میں آج بھی جاری ہے۔ عوام و خواص کی زبان پر بہت سے جاری حکیمانہ اقوال نہج البلاغہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی روزمرہ تقریروں میں نہج البلاغہ سے کئی اقوال نقل کرتے ہیں۔ کالم نویس نہج البلاغہ سے جملے اخذ کرکے اپنے کالموں کو آراستہ کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے بارے میں کئی بین الاقوامی سیمینار منعقد ہو چکے ہیں۔ کئی ایک موضوعی نہج البلاغہ چھپ چکی ہیں۔ موضوعی شرحوں اور تفسیروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دنیا میں کئی ایک ادارے ’’نہج البلاغہ‘‘ کے نام پر قائم ہیں۔ جو اس کتاب پر علمی و تحقیقی کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے سلسلہ ہائے درس، درس نہج البلاغہ کے نام سے جاری ہیں۔ نہج البلاغہ کی معجم المفہرس شائع ہوچکی ہی۔ نہج البلاغہ پر ادبی اور لغوی حوالے سے کاموں کا الگ سلسلہ ہے۔ اسناد نہج البلاغہ کی تحقیق پر دنیا میں بے پناہ کام ہو چکا ہے۔
چند ہفتے قبل پنجاب حکومت نے دیگر کئی ایک کتابوں کے علاوہ اس گراں قدرکتاب پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ اس پر ملک کے طول و عرض میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اہل علم و دانش کو اس فیصلے پر بہت تشویش ہوئی اور آخر کار پابندی کا یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا لیکن ہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا پنجاب حکومت کے ’’عظیم دماغوں‘‘ کو علم تھا کہ انھوں نے اس ’’نہج البلاغہ‘‘ کی اشاعت پر پابندی عائد کی ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا گیا ہے؟
کیا مولاناطاہر اشرفی صاحب اور ان کی ’’مایہ ناز ٹیم‘‘ نے حکومت کی اس سلسلے میں راہنمائی کی تھی یا کوئی اور ’’دل فگار دانشور‘‘ اس کام کے پیچھے تھا؟
سوال یہ ہے کہ کیا’’نہج البلاغہ‘‘ دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلانے کا باعث ہے یا اسلام کی’’محترم شخصیات‘‘ کی اس میں توہین کی گئی ہے؟
کیا ہمارے ’’ذمہ دار حکمرانوں‘‘ کے علم میں ہے کہ نبی کریمؐ کی توہین (نعوذ باللہ من ذالک) پر مبنی آج تک دنیا میں جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں کن ’’اسلامی کتابوں‘‘ سے سند پیش کی گئی ہے؟ کیا ہمارے ’’آگاہ دماغ‘‘ جانتے ہیں کہ’’رنگیلا رسول‘‘ لکھنے والے ہندو راج پال سے لے کر ’’شیطانی آیات‘‘ لکھنے والے سلمان رشدی میں سے کسی نے ’’نہج البلاغہ‘‘ سے ایک سطر بھی نقل نہیں کی۔ تو پھر جن کتابوں سے انھوں نے توہین آمیز مواد نقل کیا ہے اُن کے بارے میں اصحاب الرائے کی ’’رائے مبارک‘‘ کیا ہے؟
کسی کو اگر یہ اعتراض ہو کہ نہج البلاغہ میں بعض مکتوبات یاخطبات کا تعلق حضرت علیؑ کے دور کے مشاجرات اورجنگ جمل و صفین وغیرہ سے ہے تو پھر وہ ساری کتابیں ضبط کر لی جائیں جن میں ان جنگوں کا تذکرہ آتا ہے۔ یہ تاریخ اسلام کاالمیہ ہے کہ اس کے صفحات ایسے معرکوں کے ذکر سے سیاہ ہیں جن کے دونوں طرف اصحاب پیغمبر اکرمؐ شریک تھے۔ واقعاً یہ امر غمناک ہے کہ صفحاتِ تاریخ سے ان واقعات کو محو نہیں کیا جاسکتا۔ ان جنگوں کا تذکرہ تور ہے گا کہ یہ تاریخ کا عبرت انگیز، حقیقت کشا اور ناگزیر حصہ ہے تو کیا ان کے بارے میں میں امیر المومنین حضرت علیؑ کا نقطہ نظر محو کردیا جائے؟ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ خلیفۂ راشد برادر رسول حضرت علیؑ کی رائے اور نظریے پر پابندی لگا دی جائی؟