ایکنا نیوز- دنیا میں آبادی کے لحاظ سے عظیم ترین ملک چین میں کیمونسٹ نظام رایج ہے جہاں پچاس سے زائد چینی اقوام کے ساتھ دس مسلم اقوام بھی آباد ہیں جنمیں «هویی»، «ایغور»، «قزاق»، «تاتار»، «ازبک»، «سالا»، «دونگ شیانگ»، «بائوان»، «قرقیز» اور «تاجیک» شامل ہے۔
اقلیتی قوم «هویی» عرصے سے «نینگ شیا» جسکو چھوٹا مکہ کہا جاتا ہے وہاں آباد ہے جہاں دہشت گردی سے مقابلے کے نام پرانکو ہراساں کرنا معمول بن چکا ہے۔
۱۰۰۰ ساله وجود
امریکی سروے مرکز «پیو» کے مطابق چین میں هویی، ایغور اور قزاق اقوام ۱۰۰۰ سال پہلے یعنی خلیفه سوم کے زمانے سے آباد ہیں۔
۲۰۱۲ میں سروے کے مطابق «هویی» قوم کی تعداد ۱۰ ملین سے زاید ہے جو چین کے مسلمانوں کی مجموعی تعداد کی نصف بنتی ہے
روزنامه «گلوبل ٹایمز» کے مطابق «نینگ شیا» میں اس علاقے میں مسلمانوں کی تعداد تیرہ لاکھ ہے اور یہاں چینی اور دیگر اقوام کے باہمی میل جول سے انکی تعداد روزبروز بڑھ رہی ہے۔
حکومتی مداخلت
رایٹرز کے مطابق ان علاقوں میں حکومت کی کڑی نگرانی ہے ھویی کے ایک عالم دین کے مطابق سولہ سال سے کم عمر بچوں کو مسجد سمیت کسی مذہبی پروگرام میں شرکت کی اجازت نہیں ملتی۔
«نینگ شیا» میں سبزگنبد کو مسجدوں پر اعتراضات کا سامنا ہے اور چینی حکام کی کوشش ہے کہ مسجدوں کے طرز تعمیر کو چینی ساخت میں بدل کر مساجد کی اصل شکل اور روایتی طرز ختم کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق داڑھی ، قرآن اور مذہبی پروگراموں پر سختی سے رویہ رکھا جاتا ہے جبکہ جیلوں میں بند افراد کو زبردستی شراب پلانے کی داستانیں عام ہیں۔
پہچان یا شناخت
چینی مسلمانوں کے مطابق مسجدوں کے ساتھ ساتھ تمام مسلم شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دہشت گردی سے مقابلے کے نام پرمسلم شناخت کو نشانہ بنایا جارہا ہے
ادارہ عفو بین الملل کے رکن ویلیام نی کے مطابق بچوں کو اسلامی تعلیمات سے دور رکھ کر انکی شناخت اور مستقبل کو ہدف بنایا گیا ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کو مسجدوں میں دہشت گردانہ افکار سے گمراہ کیا جاسکتا ہے۔/