ٹرمپ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں کیا ہوں گی؟

IQNA

ٹرمپ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں کیا ہوں گی؟

7:49 - November 10, 2020
خبر کا کوڈ: 3508473
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت شروع اور سعودی پر دباو کا امکان ہے۔ سابق امریکی سفیر

امریکی عوام نے ایک ایسے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کو صدر منتخب کیا ہے جسے اس کی اہمیت کی وجہ سے امریکیوں کی ’زندگی کا اہم ترین انتخاب‘ قرار دیا جارہا تھا اور جس کے نتیجے کو ’آئندہ دہائی پر اثر انداز ہونے والا‘ نتیجہ کہا جارہا تھا۔

 

جو بائیڈن کا انتخاب امریکا اور اس کے باہر بھی لوگوں کے لیے راحت کا باعث ہے۔ بین الاقوامی برادری کے لیے اس وقت بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وائٹ ہاؤس کا یہ نیا مکین امریکی خارجہ پالیسی کو دوبارہ ٹرمپ سے پہلے کے دور میں لے جائے گا؟

 

آغاز میں تو جو بائیڈن کو مقامی مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔ امریکا میں اس وقت بھی کورونا نے سنگین صورت اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی تقسیم اور نسلی تعصب کو بھی دُور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

جو بائیڈن کا پہلا کام تو انتشار کے شکار ملک کو متحد کرنا ہوگا۔ نو منتخب امریکی صدر نے انتخابات کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں امریکا کے صدر کے طور پر اپنے فرائض انجام دوں گا۔ یہاں کوئی نیلی یا سرخ ریاستیں نہیں ہوں گی۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوگی‘۔

 

امریکی کانگریس کے انتخابات کا نتیجہ بھی ایک چیلنج بن سکتا ہے کیونکہ سینیٹ میں ابھی سے ری پبلکن جماعت کی اکثریت نظر آرہی ہے۔ بائیڈن کو ایک حکومت مخالف سینیٹ کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

دنیا کے ساتھ امریکا کے تعلقات کی سمت کو درست کرنا بھی ضروری ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں خارجہ پالیسی ایک ایسی چیز ہے جہاں بائیڈن نسبتاً آزادی سے کام کرسکتے ہیں۔ تو آخر بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بائیڈن کی امورِ خارجہ کی ٹیم میں کون لوگ شامل ہوں گے کیونکہ افراد کے انتخاب سے خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین ہوسکے گا۔

مجموعی طور پر ہم بائیڈن کی صدارت میں ایک متوازن خارجہ پالیسی کی واپسی، اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی توثیق، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت، پیرس میں ہونے والے موسمی معاہدے میں واپسی اور نیٹو جیسے اتحادیوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تجدید جیسے اقدامات دیکھ سکتے ہیں۔

 

بائیڈن کی ایک اہم ترجیح امریکا کی تباہ شدہ بین الاقوامی ساکھ کو بہتر بنانا ہوگی جس کا ثبوت کئی سروے میں ملتا ہے۔ پیو ریسرچ کے حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا کی عالمی ساکھ تاریخ میں کم ترین سطح پر ہے۔ یہ سروے بتاتا ہے کہ واشنگٹن کے اتحادی ممالک میں سے متعدد امریکا اور خاص طور پر ٹرمپ کے حوالے سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔

 

واضح طور پر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیوں کے 4 سالوں نے دنیا اور عالمی نظام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی وجہ سے امریکا کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس کا اثر و رسوخ کم ہوگیا ہے جبکہ اس کی سافٹ پاور میں بھی کمی آئی ہے۔ جو بائیڈن اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

افغانستان اور وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کے بارے میں جو بائیڈن کے خیالات ٹرمپ سے بہت مختلف نہیں ہوں گے. وہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کے ناقد رہے ہیں اور 2009ء میں اوباما کے دورِ صدارت میں انہوں نے بطور نائب صدر افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی تھی۔

 

رواں سال کے آغاز میں ایک انٹرویو میں بائیڈن سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں اگر طالبان اقتدار میں آگئے تو وہ کیا کریں گے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ میری ذمے داری نہیں ہے۔ میری ذمے داری یہ ہے امریکا کے قومی مفادات کی حفاظت کروں اور ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرتے کی خاطر امریکی مرد و خواتین کی جان کو خطرے میں نہ ڈالوں۔

 

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی فعالیت ٹرمپ کی پالیسیوں سے ایک واضح اختلاف ہوگا۔ بائیڈن نے بار بار یہ بات دہرائی ہے کہ اگر ایران جوہری معاہدے کی پاسداری اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسے مضبوط کرنے پر راضی ہو تو وہ اس معاہدے کو دوبارہ فعال کریں گے۔ بائیڈن کا خیال ہے کہ اس سے امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

 

تاہم سعودی عرب پر بائیڈن کی تنقید کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ اس خطے کے حوالے سے بائیڈن کی پالیسی کیا ہوگی۔ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے تو اسرائیل کے حوالے سے امریکا کی ایک ہی پالیسی چلتی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس پالیسی کے تحت امریکا اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔

 

امریکی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا چیلنج امریکا اور چین کے تعلقات ہوں گے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے اثرات صرف ان 2 ممالک تک محدود نہیں رہیں گے۔ ٹرمپ نے چین سے تعلقات کو اپنی محاذ آرائی کی پالیسی کی وجہ سے سخت دشمنی میں تبدیل کردیا تھا۔ امریکا میں چین مخالف خیالات کی وجہ سے ممکن ہے کہ بائیڈن بھی اس حوالے سخت پالیسی ہی اختیار کریں۔

 

لیکن ٹرمپ کے برخلاف بائیڈن کم جارحانہ پالیسی اپنائیں گے اور چین کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ وہ موسمی تغیر جیسے عالمی مسائل پر اشتراک عمل کی بھی کوشش کریں گے۔

ملیحہ لودھی: سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ

1146244

 

نظرات بینندگان
captcha