امریکہ کی ایٹمی معاہدے کی طرف مشکلات سے دوچار ہے اور ایرانی کی ایٹمی معاہدے کے وعدوں سے واپسی اور بازگشت کو روکنا بھی اتنا آسان نہیں۔
جوبائیڈن نے بھی سفارتی دباو اور حلیفوں سے صلاح و مشاورت شروع کی ہے جو ایٹمی معاہدے کے ساتھ دیگر شبعوں میں بھی معاہدے کی خواہش رکھتا ہے۔
اگرچہ ایٹمی معاہدہ امریکی اور ایران کے درمیان معاہدہ ہے تاہم اس حوالے سے سعودی عرب اور اسرائیل کی پریشانی بھی واضح نظر آتی ہے۔
ٹرمپ کا معاہدے سے اخراج سعودی اور اسرائیل کے لیے اچانک خوشی کا باعث بنا جو ایران کے کردار کو محدود کرنے کے آرزمند رہے ہیں۔
عراق اور شام میں داعش کو شکست دینے کے حوالے سے ایران کے کردار سے اسرائیل کو پریشانی رہی کیونکہ وہ اپنے اہداف علاقے میں حاصل نہیں کرپا رہے تھے اور کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے ایران کے ساتھ معاہدے سے اخراج میں بھی سعودی کا ہاتھ شامل تھا۔
عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کی دوستی میں بھی سعودی اور اسرائیلی کردار کسی سے پوشیدہ نہ تھا جو فلسطینیوں کے حقوق پر ایک قدغن قرار دیا جاتا ہے۔
ان حالات کے پیش نظر جوبائیدن کی پالیسیوں سے سعودی اور اسرائیلی پریشانی واضح ہے جو دوبارہ ایران کے کردار کو علاقے میں نہیں دیکھ سکتے۔
اسی لیے سعودی عرب اور اسرائیل کوشش کررہے ہیں کہ انکو بھی ایران کے ساتھ مذاکرات میں شامل کیا جائے. ایران اس امکان کو رد کرچکا ہے اور انکا کہنا ہے کہ امریکہ بلاشرط معاہدے کی طرف لوٹ جائے جبکہ موجودہ حالات میں اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔/