سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی ساجد عامر سدوزئی کے مطابق 70 سالہ ڈاکٹر ظاہر علی سید یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد واقعے سے قبل ڈرائیور کے ہمراہ کار میں سفر کررہے تھے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ پروفیسر نے اپنے ڈرائیور کو خاتون پاکستان گرلز کالج کے قریب اتارا اور خود کار چلا کر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ ان کی کار کو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے بظاہر لوٹنے کے لیے روکا۔
خطرہ محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر ظاہر علی نے اپنی گاڑی کی رفتار بڑھادی لیکن حملہ آور ان پر فائرنگ کر کے فرار ہوگئے۔
پروفیسر کو قریبی واقع آغا خان ہسپتال لے جایا گیا لیکن گولی لگنے کے باعث زیادہ خون بہہ جانے کے سبب وہ جانبر نہ ہوسکے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ پروفیسر کو ایک ہی گولی لگی جو ان کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئی۔
ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ واقعہ بظاہر ڈکیتی کی کوشش لگتا ہے، اگر یہ ٹارگٹ کلنگ ہوتا تو حملہ آور پوائنٹ بلینک رینج سے گولی چلاتے جو اس کیس میں نہیں ہوا۔
ایس ایس پی کے مطابق حملہ آور سامنے سے گاڑی روکنے کی بھی کوشش کرسکتے تھے جو انہوں نے نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے 9ایم ایم پستول استعمال کی جو ٹارگٹ کلنگ میں عموماً کی جاتی ہے۔
قانون نافذکرنے والے اہلکار کا کہنا تھا کہ واقعے کی مزید تحقیقات کی جارہی ہیں۔
عثمان انسٹیٹیوٹ کے ویب سائٹ پر موجود پروفائل کے مطابق ڈاکٹر ظاہر علی سید کا تعلیمی ادارے اور صنعت میں سینیئر انتظامی عہدوں پر 35 سال کا تجربہ تھا۔
انہوں نے داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے الیکٹرکل انجینیئرنگ میں بیچلرز کیا اور اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا اور میساچوٹیس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔
خیال رہے کہ سال 2021 کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران کراچی میں شہریوں کے راہزنی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور مسلح ڈکیتیوں کے دوران شہریوں سے کروڑوں روپے لوٹ لیے گئے۔