طالبان حکومت انسانی حقوق کے وعدے پورے کرے تو ہی پاکستان انہیں تسلیم کرے گا'

IQNA

طالبان حکومت انسانی حقوق کے وعدے پورے کرے تو ہی پاکستان انہیں تسلیم کرے گا'

19:39 - September 14, 2021
خبر کا کوڈ: 3510227
امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ انہیں تسلیم کرنے سے قبل عالمی برادری سے انسانی حقوق کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق امریکی خبر رساں ادارے دی واشنگٹن ڈپلومیٹ کو انٹرویو میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ طالبان اب ان وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔

افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے، ہمارا تسلسل کے ساتھ یہ موقف رہا ہے کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں بلکہ اس ضمن میں سیاسی بات چیت درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا سے امن عمل میں پیش رفت ہوگی اور اسی وجہ سے پاکستان نے بین الافغان مذاکرات کی حمایت کی اور اس حوالے سے اہم پیش رفت بھی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سیکیورٹی صورتحال کنٹرول میں ہے، طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے اور کسی طرح کی انتقامی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہوئے اور خدشات کے برعکس مزید افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطے میں رہا جائے یا نہیں مگر اس کا مطلب انہیں لازماً تسلیم کرنا نہیں، ہم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور کسی اور ملک نے بھی ابھی تک طالبان کو باقاعدہ طور تسلیم نہیں کیا بلکہ ہم طالبان کی جانب سے عالمی برادری کی تشویش دور اور ان کے وعدوں کی تکمیل کے لیے افغانستان کی نئی حکومت کی صلاحیت کا جائزہ لے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم طالبان سے توقع کرتے ہیں کہ ہر فرد کے حقوق کا احترام کیا جائے اور یہ چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانی بحران سے بچا جائے۔

دو دہائی قبل امریکا پر بدترین دہشت گردی کے حملوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری دلی ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بھی بڑا نقصان ہوا، اس جنگ میں ہماری 80 ہزار سے زیادہ جانیں گئیں جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم خود دہشت گردی کا نشانہ بنے، اس لیے متاثرین کا دکھ سمجھ سکتے ہیں، ہمیں امریکی عوام کی مشکلات کا ادراک ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے عوام کو دوبارہ ایسا دن نہ دیکھنا پڑے، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

نظرات بینندگان
captcha