کیا طالبان افغانستان میں سلفی مسلک کو نشانہ بنا رہے ہیں؟

IQNA

کیا طالبان افغانستان میں سلفی مسلک کو نشانہ بنا رہے ہیں؟

8:52 - December 30, 2021
خبر کا کوڈ: 3510991
سیکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے سلفی مسلک سے وابستہ افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں.
حمداللہ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کی ایک مسجد کے پیش امام تھے جو اگست میں افغانستان پر طال بان کے قبضے کے بعد مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے پر اب پشاور منتقل ہو گئے ہیں۔
 
حمداللہ کا تعلق سلفی اہلِ حدیث مسلک سے ہے جن سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ تر کنڑ، ننگرہار، نورستان اور کابل کے صوبوں میں آباد ہیں۔
 
ماہرین کہتے ہیں کہ داع ش خ راسان میں اکثریت سلفی مسلک سے تعلق رکھنے والے افغان باشندوں کی ہے جو حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے طال بان کی بالادستی کے مخالف ہیں۔
 
بعض ماہرین کے مطابق حنفی المسلک طال بان کی صفوں میں بعض ایسے عسکری گروہ بھی موجود ہیں جو سلفیوں کے شدید مخالف ہیں اور ان کو ’واجب القتل‘ سمجھتے ہیں۔
 
البتہ طال بان کی جانب سے مبینہ طور پر سلفیوں کے خلاف باقاعده کریک ڈاؤن کی وجہ انہیں اپنے سخت ترین حریف داع ش کے حمایتی سمجھنا ہے۔
 
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے حمداللہ نے الزام لگایا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد طال بان کی جانب سے سلفیوں کے خلاف ایک منظم کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔
 
اُن کے بقول سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام کے قتل اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مسلک سے وابستہ مساجد اور مدارس کو بھی بند یا قبضے میں لیا جا رہا ہے۔
 
کیا طالبان افغانستان میں سلفی مسلک کو نشانہ بنا رہے ہیں؟
کراچی میں مقیم اسلامی و فقہی امور کے محقق شمس الدین شگری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طال بان مکتبِ فکر درحقیقت اہلسنت و الجماعت حنفی دیو بندی ہے اور وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔
 
لیکن اُن کے بقول سلفی مسلک پر یقین رکھنے والے تقلید کے خلاف ہیں اور کسی امام کی تقلید کو نہ صرف غیر ضروری سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تقلید حرام ہے۔ بنیادی فرق یہی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں ان مسالک کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ سلفی، اہلحدیث، غیر مقلدین اور وہابی ایک ہی مسلک ہے۔
 
افغانستان کے سیکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سے سلفی مسلک سے وابستہ افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں کیونکہ طال بان کے بعض حلقوں میں تقریباً ہر افغان سلفی کو داع ش کا حامی سمجھا جاتا ہے۔
 
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ طال بان داع ش سے تعلق کے شبہے میں سلفی مسلک کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
 
طال بان کے اقتدار میں آنے کے بعد داع ش ’خر اسان‘ کے فعال ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔
 
بعض اطلاعات کے مطابق کابل، قندھار، قندوز اور ننگرہار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اپنے حملوں کے ذریعے داع ش طالب ان کی حکمرانی کو چیلنج کر رہی ہے۔
 
سلفیوں کے خلاف کریک ڈاؤن
 
طال بان کے 15 اگست کو کابل پر قبضے کے بعد سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کا آغاز پغمان ضلعے میں سلفی مکتبِ فکر کے مذہبی رہنما شیخ ابو عبیداللہ متوکل کی تشدد زدہ لاش ملنے سے ہوا۔
 
شیخ متوکل پر ماضی میں اشرف غنی کی سابق افغان حکومت کی طرف سے داع ش خ راسان کی حمایت کے الزامات لگے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے طویل عرصہ قید کاٹی مگر طال بان کے کابل پر قبضے کے بعد جیلوں میں قیدیوں کی رہائی کے موقع پر وہ بھی جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
 
حمداللہ اور جماعت سلفیہ کے دیگر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 28 اگست کو کابل میں واقع شیخ متوکل کو ان کے گھر سے پانچ مسلح افراد، اہلِ علاقہ اور ان کے گھر والوں کے سامنے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ طالب ان کے کچھ رہنما شیخ متوکل سے کسی سلسلے میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک ہفتے بعد ان کی تیزاب سے مسخ شدہ لاش ملی۔
 
طال بان کے ترجمان ذبی ح اللہ م جاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیخ متوکل کے قتل میں اپنی تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ طال بان انٹیلی جنس اس قتل کے مجرمان کی تلاش میں ہے۔
 
حمداللہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد طال بان کی جانب سے سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام، آئمہ کرام اور مساجد اور مدارس کے خلاف باقاعده کریک ڈاؤن شروع ہو گیا ہے جو آج تک جاری ہے۔
 
ان کے بقول ننگرہار اور کنڑ کے مختلف علاقوں میں ہر چند دن بعد لاشیں پھینک دی جاتی ہیں جن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق سلفی مسلک سے ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو گولی مار کر یا پھانسی دے کر جب کہ کچھ کو سر قلم کرکے ہلاک کیا گیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے ہلاک شدگان کی جیبوں سے ہاتھ سے لکھے نوٹ ملتے ہیں جن میں ان افراد پر داعش سے تعلق کا الزام لگایا جاتا ہے۔
 
ان ماورائے عدالت ہلاکتوں کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا لیکن سلفی مسلک کے رہنما طال بان کو اس کا ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔
 
طال بان کے ترجمان ذبی ح اللہ م جاہد اور طال بان حکومت کی وزراتِ داخلہ کے ترجمان قاری سع ید خوست ی نے وائس آف امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے بھیجے گئے پیغامات کا جواب نہیں دیا۔
 
البتہ طال بان کے گورنر ننگرہار م لا ندا م حمد کے دفتر کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طال بان کا آپریشن کسی مسلک کے خلاف نہیں بلکہ داع ش کے شدت پسندوں کے خلاف ہے جو ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
 
ترجمان نے بتایا کہ سلفی مسلک کے علمائے کرام طال بان کی ام ارت اس لامیہ کے ساتھ ہیں اور جو مدارس بند کیے گئے ہیں، ان کے منتظمین کا تعلق داع ش کے ساتھ تھا۔ لہٰذا یہ مدارس عنقریب پرامن سلفی علمائے کرام کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
 
سلفی علمائے کرام کا طال بان کو خط
 
افغانستان میں سلفی علمائے کرام کی جانب سے حال ہی میں لکھے گئے عربی زبان میں خط میں مبینہ طور پر طال بان کے کریک ڈاؤن کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔
 
وائس آف امریکہ کے پاس موجود اس خط میں طال بان حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان کے سلفی علمائے کرام نے ملک میں امن و امان کے قیام اور کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے متعدد کانفرنسیں بھی منعقد کیں جس میں طال بان کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔
 
خط میں لکھا گیا کہ ’’جس طرح طال بان حکمرانوں نے شیعہ، ہندو اور سکھ کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی اجازت دے رکھی ہے، اہلحدیث مسلک کے افراد بھی قوم وملت کا حصہ ہونے کی وجہ سے طال بان سے انہی آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
 
خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کے باجود طال بان کی صفوں میں بعض بریلوی صوفی جو شروع ہی سے اہلحدیث مسلک کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں، مسلک سے وابستہ علمائے کرام اور افراد کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور یہ نفرت اتنی ہے جتنی ایک مسلمان کافر سے کرتا ہے۔ اس وجہ سے اہلحدیث کمیونٹی ایسی مشکلات سے دوچار ہے جن کا سن کر انسان کے ماتھے پر پسینے آ جاتے ہیں۔‘‘
 
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ طال بان کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں متعدد علمائے کرام قتل کیے گئے ہیں جن میں شیخ متوکل کے علاوہ قاری عبیداللہ، شیخ لقمان واخواہ (جلال آباد)ِ، شیخ محمد نبی (جلال آباد) اور شیخ ضیا الحق قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح جلال آباد کے شیخ بلال عرفان، شیخ قاری مزمل، محمد الله لغمانی، حمیداللہ لغمانی سمیت متعدد جید علمائے کرام کو گرفتار کیا گیا ہے۔
 
خط میں کہا گیا ہے کہ طال بان کی انٹیلی جنس فورس مسلک کے جن علمائے کرام کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے ان میں شیخ احمد شاہ، شیخ سردار ولی، شیخ جاوید اور دلاور منصور قابل ذکر ہیں۔
 
خط کے مطابق ننگرہار، کنڑ اور تخار میں سلفی مسلک میں متعدد مساجد اور مدارس یا تو بند کر دیے گئے ہیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔
 
داع ش اور سلفی مسلک
 
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق طال بان قیادت کی جانب سے سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن شروع کرنے کے کافی اسباب ہے۔
 
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طال بان پاکستان کے چند منحرف رہنماؤں نے 2014 میں داع ش خ راسان کی بنیاد ڈالی تھی۔
 
بعدازاں ان رہنماؤں کے ننگرہار میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے کے بعد داع ش خ راسان میں پشاور میں قائم سلفی مدارس سے افغان علمائے کرام اور طلبہ کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ نائن الیون سے قبل طال بان کی جانب سے سلفی مدارس پر پابندی کے سبب متعدد مدارس پشاور منتقل ہو گئے تھے۔
 
افغانستان میں طال بان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کے مطابق داع ش خ راسان کے قیام سے سلفی افغانوں کو طال بان کے مقابلے میں اپنی عسکری قوت بڑھانے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ مگر پھر داع ش خ راسان کی جانب سے سخت گیر بیانات اور خون خرابے کے بعد افغان سلفی علمائے کرام نے ان کی حمایت چھوڑ دی۔
 
کنڑ اور ننگرہار میں داع ش خ راسان کی شکست اور امریکہ اور طال بان کے امن معاہدے کے بعد مارچ 2020 میں افغانستان سلفی کونسل کے امیر شیخ عبدالعزیز کی قیادت میں ایک وفد نے طال بان کے سربراہ م لا ہیب ت اللہ سے ملاقات کی اور اُنہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔
 
عبدالسید کے مطابق طال بان اور سلفی علمائے کرام کے مابین اس ملاقات پر مبنی 17 منٹ کی ویڈیو طالب ان کے سوشل میڈیا چینل ’الع مارہ‘ سے بھی جاری کی گئی تھی۔
 
وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفد میں افغانستان میں سلفی اسلام کو فروغ دینے والے عالم دین مفتی جمیل الرحمٰن کے بھتیجے حاجی حیات اللہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مقیم افغان سلفی عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری کے بھائی بھی شامل تھے جنہوں نے طالب ان قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ سلفی مسلک کو طال بان کی داع ش کے خلاف جنگ سے الگ کریں۔
 
عبدالسید کے مطابق، ’’انہوں نے طال بان قیادت پر واضح کیا کہ افغانستان میں داع ش افغان سلفیوں میں ہی سے وجود میں آئی مگر افغان سلفی داع ش کی طال بان کی خلاف جنگ کی حمایت نہیں کرتے اور اسے ایک بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں۔
 
البته رواں سال اگست میں افغانستان پر قبضے کے بعد طال بان کی جانب سے سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کا دوبارہ آغاز ہوا۔
 
نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
 
افغانستان میں طال بان اور داع ش کے معاملات سے باخبر صحافیوں، مذہبی علمائے کرام اور سابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ داع ش اس وقت طال بان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نئے جنگجو ڈھونڈ رہی ہے۔ لہذٰا طال بان کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے سلفی نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کی جانب راغب ہو سکتی ہے۔
 
ننگرہار میں داع ش کے خلاف 2019 میں کریک ڈاؤن میں حصہ لینے والے سابق افغان سیکیورٹی اہلکار عبدالجبار کا کہنا ہے کہ چونکہ داع ش کے اکثریتی جنگجوؤں کا تعلق سلفی مسلک سے رہا ہے۔ لہٰذا طال بان کی جانب سے سلفی مکتبِ فکر پر مذہبی پابندیوں کی وجہ سے اس طبقے کے نوجوان داع ش کی طرف پھر راغب ہو سکتے ہیں۔
 
داع ش کے عربی زبان میں شائع ہونے والے جریدے ’ال نبا‘ سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 13 اگست سے لے کر تین دسمبر تک داع ش افغانستان اور پاکستان میں کل 102 حملے کرنے کا دعویٰ کر چکی ہے جن میں 14 حملے پاکستان جب کہ دیگر افغانستان میں کیے گئے ہیں۔
 
عبدالجبار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’طال بان کی سلفی مسلک کے خلاف کارروائیوں سے ملک میں مسلکی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز ہو سکتا ہے۔‘‘
 
پاکستانی سلفی جماعتوں کی مذمت
 
پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں بھی پاکستانی سلفی جماعتوں نے مشترکہ اجلاس منعقد کیے جس میں افغانستان میں جاری سلفی مسلک کے افراد کے خلاف طال بان کے مبینہ کریک ڈاؤن پر تشویش اظہار کیا گیا۔
 
شوریٰ علما اہل حدیث خیبرپختونخوا نے ستمبر کے اواخر میں پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں شیخ متوکل کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے طال بان قیادت سے افغان حکومت میں اہل حدیث کو نمائندگی دینے، تمام بند مدارس کے کھولنے اور اہل حدیث علما کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا تھا۔
 
تنظیم کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن مدنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کی اہلحدیث تنظیمیں طال بان قیادت سے افغانستان کے اہل حدیث کے علما، مدارس و مساجد اور عقیدت مندوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
 
ضیاء الرحمٰن
نظرات بینندگان
captcha