ایکنا، عصر حاضرمیں لکھی جانے والی تفسیر«الفرقان» صادق تہرانی کی کاوش ہے جو تیس جلدوں میں چودہ سال کے عرصے مین عربی زبان میں تحریر کی گیی ہے، کہا جاتا ہے کہ معروف مفسر علامہ طباطبائی نے اس کو دیکھ کر کہا کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور باعث فخر سرمایہ ہے۔
«الفرقان» مصنف کی زندگی
محمد صادقی تهرانی (1926-2011 عیسوی) معروف فقیه اور شیعہ مفسّر ہے جس نے معروف اور بزرگ علما جیسے آیت عظام محمدعلی شاه آبادی، محمدحسین زاهد، باقر آشتیانی، سید صدرالدین جزایری، مهدی آشتیانی، احمد آشتیانی، سید ابوالحسن رفیعی، آیتالله بروجردی اور علامه طباطبایی سے کسب فیض کیا ہے. صادقی تهرانی کی خاص بات یہ ہے کہ وہ قرآن کو علوم کو محور سمجھتے ہیں۔
علمی خدمات کے علاوہ صادقی نے سیاسی میدان میں بھی خدمات انجام دی ہے اور سال 1962 کو مسجد اعظم قم میں شاہ ایران کے خلاف تقریر پر انکی گرفتاری کا آرڈر جاری ہوا، وہ سترہ سال تک سعودی عرب، عراق اور لبنان میں پہلوی حکومت کے خلاف سرگرم رہا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ ایران کے مختلف شہروں میں امام جمعہ رہا اور آخر عمر تک تالیف و تدریس میں مشغول رہے جنمیں سے نمایاں تیس جلدوں پر مشتمل تفسیر«الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنه» ہے۔
تفسیر کی خصوصیات
صادقی کا طرز تحریر قرآن سے قرآن کی تفسیر ہے. وہ خود ببانگ ہل کہتا ہے: «تمام روش نادرست ہے، سوائے قرآن سے قرآن کی تفسیر جو سنت پیغمبر(ص) اور اماموں (ع) کی روش ہے لہذا مفسروں پر لازم ہے کہ اس روش کو معصوم سے سیکھے اور اس روش پر کام کریں۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ «تفسیری روش دو حالت سے خارج نہیں، تفسیر قرآن با قرآن یا تفسیر قرآن با الرای».
ایک اور نکتہ صادقی تهرانی کی یہ ہے کہ انہوں نے الفرقان کو مکمل طور پر عربی اور فارسی تفاسیر کے مطالعے کے بعد تحریر کیا ہے۔
اجتماعی مسائل
تفسیر الفرقان کی ایک اور خاص بات اجتماعی تفسیر ہے جسمیں معاشرے میں موجود حقایق پر بحث کی گئی ہے ان میں نظام حکومت، اقتصادی موضوعات، خواتین اور مسلم امت کی وحدت، معاشرے میں طبقہ بندی وغیرہ کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔