ایکنا نیوز، الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق "ادارہ علمائے ہند" نے بھارت کی صدر دروپدی مرمو کو ایک یادداشت بھیجی ہے اور فوری مداخلت کی درخواست کی ہے تاکہ بعض انتہاپسند ہندو رہنماؤں کی طرف سے نبی اکرم حضرت محمد (ص) کی شان میں گستاخانہ بیانات کو روکنے میں مدد مل سکے۔
یہ تنظیم، جو کہ علما اور مسلمان مبلغین کی سب سے نمایاں تنظیموں میں سے ایک ہے، نے ملک میں بڑھتی ہوئی ان توہین آمیز باتوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو کہ سماجی تناؤ کو ہوا دے رہی ہیں۔
اسلامی محقق مولانا محمود مدنی نے کہا کہ حال ہی میں بھارت میں توہین آمیز بیانات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ مدنی نے کہا کہ یہ اقدامات سماجی دراڑوں کو گہرا کر رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تناؤ کو ہوا دے رہے ہیں۔
مولانا محمود مدنی نے کہا کہ حال ہی میں مختلف شعبوں کی ممتاز شخصیات دہلی میں جمع ہوئیں تاکہ اس حساس معاملے پر بحث کریں اور نبی اکرم (ص) کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کا مقابلہ کرنے کے لئے منصوبے وضع کریں۔
مدنی نے مزید کہا کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کچھ گستاخوں کی حفاظت کر رہی ہے جو بھارت کے صدیوں پرانے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہے۔ مدنی نے توشار آرون گاندھی، جو کہ مہاتما گاندھی کے پوتے ہیں، کے اس تجویز کو سراہا کہ ایک ایسا مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جس کا مقصد فرقہ واریت اور مذہبی اختلافات کا مقابلہ کرنا ہو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "انجمن علمائے ہند" نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کی صدر دروپدی مرمو کو باضابطہ یادداشت بھیجی جائے اور ان سے ان توہین آمیز باتوں کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی درخواست کی جائے۔
علمائے کرام نے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ نوپور شرما، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق رہنما ہیں اور جنہوں نے نبی اکرم (ص) کے بارے میں توہین آمیز بیانات دے کر بین الاقوامی سطح پر تنازعہ پیدا کیا تھا، ایک سال کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ منظر عام پر آ گئی ہیں اور ہندوؤں کے اجتماع میں دوبارہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
انجمن علمائے مسلمان بھارت نے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ فرقہ واریت کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے اور اس سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے جو کہ بھارت کی تاریخ میں ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔
4244929