تعاون کے بنیادی افکار اور عوامی رفاہ

IQNA

تعاون قرآن کریم میں/4

تعاون کے بنیادی افکار اور عوامی رفاہ

8:13 - October 22, 2025
خبر کا کوڈ: 3519358
ایکنا: تعاون اور نادار طبقوں کی ضرورت پوری کرنا قرآن اور روایات اہل بیت میں بہت تاکید شدہ ہے۔

ایکنا: سورہ مبارکہ مدثر میں جب اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کے درمیان سوال و جواب کا ذکر آتا ہے تو جہنمیوں کے جہنم میں جانے کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ محتاجوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے: «مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ * قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ * وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ * وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ * وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ»

تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور ہم لغویات میں پڑنے والوں کے ساتھ مشغول رہتے تھے، اور ہم روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔" (مدثر: 42 تا 46)

یہ مسئلہ صرف آخرت سے متعلق نہیں بلکہ دنیاوی زندگی سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ سورہ فجر میں بھی دنیا میں ذلت و رسوائی اور خدا کی رحمت سے محرومی کی وجوہات میں یتیموں کی عزت نہ کرنا اور محتاجوں کو کھلانے میں ایک دوسرے کو ترغیب نہ دینا بیان کیا گیا ہے: «وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ * كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ * وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ»

لیکن جب خدا اسے آزماتا ہے اور اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۔ ہرگز نہیں! بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے، اور نہ ہی تم ایک دوسرے کو مسکینوں کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔ (فجر: 16 تا 18)

آیت کے الفاظ "تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ" میں کئی اہم نکات پوشیدہ ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ یتیم کے جسم سے زیادہ اہم اس کی روح اور شخصیت ہے، جس کا احترام لازم ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یتیموں کے ساتھ سلوک کا پہلا تقاضا ان کی شخصیت کی عزت ہے۔ چونکہ خدا نے انسان کو عزت دی ہے، اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ یتیموں کی بھی عزت کرے۔

اسی طرح لفظ "تَحَاضُّونَ" کا مطلب ہے "ایک دوسرے کو ترغیب دینا"۔ یعنی صرف خود مسکینوں کو کھانا کھلانا کافی نہیں، بلکہ دوسروں کو بھی اس نیکی پر ابھارنا چاہیے، تاکہ معاشرے میں باہمی تعاون اور ہم دردی کا جذبہ پروان چڑھے۔ اس طرح یتیموں کی تکریم اور دوسروں کے ساتھ احسان و تعاون، انسان کی عزت، روزی اور برکت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

قرآن و سنت کے ورثے میں بھی اجتماعی اور اقتصادی مسائل کے حل کے لیے باہمی تعاون، مدد اور غریبوں کی دستگیری پر زور دیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ قرآن ان بنیادی اصولوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ مال و دولت دراصل سماج کی امانت ہے، قدرتی وسائل میں سب انسانوں کا مشترکہ حق ہے، اور اسلامی برادری کے اصول کے تحت امیر و غریب کے درمیان شراکت ضروری ہے۔

اگلی تحریروں میں، تعاون کے ان فلسفیانہ اور قرآنی اصولوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی۔/

نظرات بینندگان
captcha