تیونس کے خزانوں میں نایاب خطی نسخے

IQNA

تیونس کے خزانوں میں نایاب خطی نسخے

12:23 - October 26, 2025
خبر کا کوڈ: 3519381
ایکنا: تیونس کی جامعہ الزیتونہ، قیروان یونیورسٹی اور دیگر نجی کتب خانوں سمیت کئی علمی مراکز صدیوں سے علمی و فکری سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں، جن میں آج بھی بیش قیمت مخطوطات (قدیم نسخے) محفوظ ہیں۔

ایکنا نیوز- العربی الجدید نیوز کے مطابق کہ تیونس کے یہ کتب خانے قرونِ وسطیٰ سے لے کر آج تک علمی و فکری سرگرمیوں کے باعث بےشمار نایاب نسخوں کے خزانے بن چکے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں اس موضوع پر تحقیقی اشاعتوں کی کمی اور کثیرالجلدی علمی منصوبوں میں سستی کے باعث مخطوطات پر تحقیق کا میدان علمی اداروں، یونیورسٹیوں اور ناشران کے لیے زیادہ پرکشش نہیں رہا۔

نایاب نسخہ "الکتاب الباشی"

اس کی ایک مثال “الکتاب الباشی” ہے، جو حمودہ بن عبدالعزیز، اٹھارہویں صدی کے مؤرخ و ادیب، کی تصنیف ہے۔ اس نایاب نسخے کا مکمل ایڈیشن طویل انتظار کے بعد 20 ستمبر 2025ء کو تیونسی اشاعتی ادارے مجمع کتاب الاطرش نے نادیا بوسعیدی بن جبر (جامعہ کی محقق و استاد) کی نگرانی میں شائع کیا۔ اس کا پہلا حصہ 1970ء میں محمد ماضور کی تدوین کے ساتھ شائع ہوا تھا، مگر دوسرا حصہ، جو پہلے کی طرح اہمیت رکھتا ہے، دہائیوں تک شائع نہ ہونے کے باعث یہ منصوبہ نامکمل رہا۔

تیونس کے کتب خانوں کے خزانے

تیونس کے علمی ورثے کے بڑے حصے کے تحفظ کا سہرا محمد محفوظ کی کتاب “زندگینامہ نویسندگان تونسی” (1994) اور حسن حسنی عبدالوھاب کی تصنیف “کتاب الحیاة فی التألیفات التونسیة” کو جاتا ہے۔

ان دونوں علمی کاموں نے 1885ء میں قائم ہونے والی قومی لائبریری (الکتبہ الوطنیہ) کے قیام کی بنیاد رکھی، جس نے قدیم نسخوں کی حفاظت اور جمع آوری میں نمایاں کردار ادا کیا۔

شہر رقادہ میں قائم قومی لیبارٹری برائے مرمت و نگہداشتِ مخطوطات نے قدیم نسخوں کی بحالی و حفاظت کے کئی منصوبے شروع کیے۔ ان میں سب سے نمایاں تحقیق ابن خلدون کی شہرۂ آفاق تصنیف “کتاب العبر” (تاریخ ابن خلدون) اور اس کی معروف “مقدمہ” پر مبنی ایک جامع منصوبہ تھا، جس کی نگرانی ابراہیم شبوح نے کی اور درجنوں محققین نے حصہ لیا۔ یہ تحقیق تیونس کی حدود سے باہر جا کر ایک بین الاقوامی علمی کارنامہ بن گئی۔

قومی لائبریری نے مزید نایاب نسخوں پر تحقیقی سرمایہ کاری کی، جن میں “حیله و عشق” نامی عربی نثر کا پہلا ناول شامل ہے، جو 1916ء میں یعقوب شملہ نے تیونسی عوامی لہجے میں تحریر کیا تھا۔

فہرست بندی کے چیلنجز

محقق عبدالوھاب دخلی نے اپنی تحقیق “سهم تونس فی بررسی میراث نسخ خطی” میں واضح کیا کہ مختلف اداروں میں نسخوں کی تقسیم کے باعث ان کی درست فہرست بندی و دستاویز سازی مشکل ہو چکی ہے، خاص طور پر جامعہ الزیتونہ جیسے ادارے جو مذہبی مخطوطات میں مہارت رکھتے ہیں۔

انفرادی کوششیں

اس میدان میں چند قابلِ ذکر انفرادی تحقیقی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں، جن میں شیخ محمد بن سلامہ کی تصنیف “العقد المنضد فی اخبار المشیر الباشا احمد” شامل ہے، جو انیسویں صدی میں تیونس میں جدیدیت کے آغاز پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ کتاب گزشتہ سال احمد الطویلی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی۔

تاہم عمومی طور پر، انفرادی یا نجی اشاعتی کوششیں وسائل، سرمایہ کاری اور تحقیقی ترغیبات کی کمی کے باعث محدود ہیں، اور صرف چند ناشر ایسے ہیں جو اس قیمتی علمی ورثے پر کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔/

 

4309942

نظرات بینندگان
captcha