ایکنا نیوز، دی ساؤت سیئٹل ایمیرلڈ کے مطابق، غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکہ میں مسلم کمیونٹیز ایک مشکل سال گزار رہی ہیں۔ بہت سے افراد اپنے غزہ میں موجود عزیز و اقارب کی حالت پر فکر مند رہے ہیں۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے مسلمانوں کے لیے ان کے پہلے دور حکومت کی تلخ یادیں تازہ ہو گئی ہیں، جن میں جنوری 2017 میں نافذ ہونے والا سفری پابندی کا قانون بھی شامل ہے، جس نے سات مسلم اکثریتی ممالک کے افراد کو امریکہ سفر کرنے سے روک دیا تھا۔
نومبر میں واشنگٹن کی کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کی شاخ کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق، تقریباً 83 فیصد مسلمانوں نے گزشتہ سال اسلاموفوبیا کا سامنا کیا۔
واشنگٹن برانچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمران صدیقی نے کہا:
"بطور ایک تنظیم جو براہِ راست کمیونٹی کے ساتھ کام کرتی ہے، یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ پالیسی سازوں، اداروں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ایک بڑی خلیج موجود ہے، کیونکہ اسلاموفوبیا کا شکار افراد کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ واشنگٹن میں 80 سے 100 ہزار مسلمان رہائش پذیر ہیں، جن میں اکثریت کنگ کاؤنٹی میں مقیم ہے۔ رواں سال ان کے خلاف کئی پرتشدد واقعات پیش آئے ہیں۔ جون میں، 17 سالہ مسلمان نوجوان، جو ایک کھلونا بندوق اسپورٹس اسٹور میں واپس کرنا چاہتا تھا، رینٹن میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ فروری میں، سیئٹل یونیورسٹی کے علاقے میں ایک مسلمان خاتون کے کام کی جگہ پر چاقو کے وار سے ان کا حجاب اتار دیا گیا۔
واشنگٹن کے مسلمان کارکن، آدم جمال نے کہا:
"یہ واقعات اور ان جیسے دیگر ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ اسلاموفوبیا محض ایک خطرہ نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقی اقدامات ہیں جو مسلمانوں کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔"
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ تقریباً 69 فیصد جواب دہندگان، جن کی تعداد تقریباً 500 تھی، نے اسکول یا کام کی جگہ پر امتیازی پالیسیوں یا رویوں کا سامنا کیا، جیسے نماز کے لیے وقت نہ دینا۔
غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسلاموفوبیا کے واقعات میں شدت آگئی ہے۔ تقریباً 39 فیصد جواب دہندگان نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد شدید امتیازی سلوک کا سامنا کیا، اور نصف سے زائد نے کہا کہ ان کے اظہارِ رائے کی آزادی کے حقوق کو محدود یا مسترد کر دیا گیا۔
4251132