ایکنا نیوز، الجزیرہ ویب سائٹ نے قدس شہر میں واقع قدیم مسجد اقصیٰ کی لائبریری کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔
یہ لائبریری مذہبی، تاریخی، ادبی، فقہی (اہل سنت کے چاروں مکاتب فکر کے فقہ)، تفسیری اور حدیثی کتب پر مشتمل ہے۔
محلِ وقوع یہ لائبریری مسجد اقصیٰ کے مغربی حصے میں، مسجد قبلی اور اسلامی میوزیم کے درمیان واقع ہے۔
یہ لائبریری ایوبی دور میں قائم ہوئی اور وقت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔
پہلا مرحلہ: خزانہ مسجد اقصیٰ
اموی دور میں یہاں خطی نسخے رکھے جاتے تھے، اور عباسی دور میں لائبریریوں کے فروغ کے ساتھ اسے مزید وسعت دی گئی۔
عباسی دور میں کاغذ کی درآمد میں اضافہ ہوا اور کتابوں کی اشاعت میں ترقی ہوئی۔
قاضی قدس نے ایک انچارج مقرر کیا جو کتب و مخطوطات کی حفاظت، مرمت اور دیکھ بھال کا ذمہ دار تھا۔
دوسرا مرحلہ: دار الکتب مسجد اقصیٰ
بیسیویں صدی میں لائبریری کی عمارت کئی بار تبدیل ہوئی۔
1920ء میں مجلس اعلای اسلامی کے قیام کے بعد دار الکتب مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی گئی۔
اس دوران کتب خریداری، وقف اور عطیات کے ذریعے جمع کی گئیں۔
خطی نسخے مسجد اقصیٰ، گنبد صخرہ اور دیگر مدارس سے بھی حاصل کیے گئے۔
تیسرا مرحلہ: موجودہ مسجد اقصیٰ لائبریری
وقت کے ساتھ یہ لائبریری علمی مرکز بن گئی، لیکن خطے کے حالات نے اس کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کیں۔
1976ء میں، اوقاف اسلامی قدس شریف نے اسے مدرسہ اشرفیہ میں منتقل کیا، اور 2000ء میں مسجد النساء میں موجودہ مقام پر لے جایا گیا۔
یہ لائبریری ایک منزلہ عمارت ہے، جس میں انتظامی دفتر، ایک فنی و انتظامی ہال، اور ایک بڑا مطالعہ ہال شامل ہے۔
کتب خانہ کے ذخائر
2025ء تک، یہ لائبریری 1,20,000 سے زائد کتب پر مشتمل ہوگی، جن میں دینیات، تصوف، عربی زبان، تاریخ، جغرافیہ، سیاست، ادب، اور سماجیات کے موضوعات شامل ہیں۔
لائبریری کے تین بڑے شعبے:
عوامی کتب خانہ – 1,10,000 سے زائد کتب پر مشتمل۔
بچوں کا کتب خانہ – 9,000 سے زائد کتب شامل ہیں۔
خطی نسخوں کا ذخیرہ – 1,143 نایاب مخطوطات، جن میں اکثریت عثمانی دور کی ہے، اور کئی نسخے استنبول میں نقل کیے گئے۔
نایاب مخطوطات
خطیب بغدادی کی تحریر کردہ قدیم ترین خطی کتاب (463 ہجری/1071ء) اس ذخیرے میں موجود ہے۔
بیسویں صدی کی نایاب مطبوعات اور ترک زبان میں تحریر کردہ تاریخی کتب و رسائل بھی یہاں محفوظ ہیں۔
یہ لائبریری مسلمانوں کے علمی ورثے کی حفاظت کا ایک عظیم مرکز ہے اور مسجد اقصیٰ کے تاریخی، دینی اور ثقافتی کردار کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔