ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی ممالک میں حالیہ دہائیوں میں "زیرزمینی مساجد" کے رجحان کا سامنا ہے، جو بظاہر نیک نیتی پر مبنی ہے لیکن اس پر مختلف اعتراضات بھی کیے جا رہے ہیں۔ الجزیرہ نیٹ ورک کی ویب سائٹ پر عرب مصنف اور ناقد، علی عبدالرؤوف کے ایک مضمون میں اس مسئلے پر تنقید کی گئی ہے۔ اس مضمون کا ترجمہ درج ذیل ہے:
پچھلی صدی کے 1980 کی دہائی میں، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک رجحان ابھرا، جو بظاہر مثبت لگتا تھا لیکن اس کے بنیادی پہلوؤں پر غور و فکر کی ضرورت تھی۔ اس رجحان کو "زیرزمینی مساجد" کہا جا سکتا ہے، جو پہلے قاہرہ کی رہائشی عمارتوں میں دیکھی گئیں اور بعد میں دیگر عرب شہروں تک پھیل گئیں۔
شہری اور سیکیورٹی حکام نے وزارت اوقاف مصر کے تعاون سے رہائشی عمارتوں کے مالکان کو اجازت دی کہ وہ اپنی عمارتوں کے تہہ خانوں کو نماز کے لیے مخصوص کر سکیں، جنہیں "زاویہ"، نماز خانہ یا مسجد کا نام دیا گیا۔
بہت سے مالکان نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا، لیکن ضروری نہیں کہ یہ صرف نماز پڑھنے والوں کی سہولت کے لیے ہو، بلکہ اس فیصلے میں ان لوگوں کے لیے کشش تھی جو ٹیکس میں دی گئی رعایتوں سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح، نماز ادا کرنے کا تجربہ ایک ایسے زیرزمین، خالی، نمناک اور تاریک جگہ میں منتقل ہو گیا، جہاں لکڑی کے دروازے پر "مسجد نور" لکھا ہوتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ، ہم نے نماز کے لیے جگہ کی انسانی، روحانی، معماری اور تعمیراتی اہمیت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ یہ لاپرواہی صرف نجی عمارتوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ عوامی عمارتوں میں بھی عام ہو گئی۔
زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ نماز کی جگہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں غیرمرکزی اور غیر نمایاں مقامات جیسے تہہ خانوں، راہداریوں، اور اندھیری کمروں تک محدود کر دیا گیا، یہاں تک کہ بڑے شاپنگ مالز اور تجارتی مراکز میں بھی یہی رجحان دیکھنے کو ملا۔
آج جب اسلام کو عالمی سطح پر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، اس کے امیج کو خراب کیا جا رہا ہے، اور اسلام پر عمل کرنے والوں کی قدر کم ہو رہی ہے، تو اب وقت آ گیا ہے کہ نماز کی جگہوں کے حوالے سے ایک "انقلابی تبدیلی" لائی جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ رہائشی، سرکاری، اور تجارتی عمارتوں میں نماز کے لیے ایک مرکزی، خوبصورت اور پرکشش جگہ مختص کی جائے، جو اسلام اور مسلمانوں کا مثبت پیغام دنیا تک پہنچائے۔ ایسی جگہ ہونی چاہیے جو نہ صرف لوگوں کو نماز کی طرف راغب کرے بلکہ انہیں نماز کے روحانی اور سماجی فوائد سے بھی مستفید ہونے کا موقع دے۔
نماز کی جگہ کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ محض مجبوری میں وہاں اپنی عبادات مکمل کریں اور پھر جلدی سے خریداری یا تفریح کے لیے واپس لوٹ جائیں۔ اس کے بجائے، یہ ایک روحانی اور خوبصورت تجربہ ہونا چاہیے جو عبادت گزاروں کو پرسکون ماحول فراہم کرے اور انہیں اسلام کی اصل روح سے جوڑے۔/
4264234