ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی طالبہ محیا میرصادقی ٹیلگراف میں لکھتی ہے:
رمضان المبارک 1404ھ کے ایک دن، میں چین کی ایک مشہور مسجد میں گئی۔ جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئی، میرے احساسات بدلنے لگے۔ یہ مسجد مشرق وسطیٰ کی روایتی مساجد سے مختلف تھی—یہاں نہ بلند گنبد تھے، نہ باریک مینار، بلکہ اس کی ساخت زیادہ تر ایک روایتی چینی معبد سے مشابہ تھی۔ مسجد کے داخلی دروازے کے اوپر چینی-عربی خطاطی میں "بسم اللہ" کندہ تھا، جو نہایت دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔
چین کی مساجد، روایتی اسلامی طرز تعمیر کے بجائے چینی معبدوں سے متاثر ہیں اور ان کا طرزِ تعمیر منفرد اور مخصوص ہوتا ہے۔ چاند نما چھتیں، لکڑی کی دلکش تزئین، کشادہ صحن، ہریالی سے بھرے باغات اور دیواروں پر عربی و چینی خطاطی کا حسین امتزاج، مسجد کے روحانی ماحول کو مزید دلکش بناتا ہے۔
رمضان، بندگی، روحانیت اور ہمدردی کا مہینہ ہے، جو دنیا کے ہر کونے میں اپنی مخصوص فضاء اور انداز رکھتا ہے۔ اسلام، اگرچہ اپنے عربی پس منظر کے ساتھ پہچانا جاتا ہے، لیکن اس کا دائرہ افریقہ کے صحراؤں سے لے کر مشرقی ایشیا کے پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ میرے لیے سب سے منفرد لمحہ چین کی اس خوبصورت مسجد میں افطار کا تجربہ تھا، جہاں میں نے اسلامی روایات اور چینی ثقافت کا حسین امتزاج قریب سے دیکھا۔
چین میں اسلام کی آمد 1300 سال قبل، سلسلہ تانگ کے دور میں ہوئی، جب مسلمان تاجر شاہراہِ ریشم کے ذریعے چین پہنچے۔ وقت کے ساتھ، اسلام مقامی ثقافت میں رچ بس گیا اور چینی مسلمانوں کے طرزِ زندگی، کھانوں اور روایات پر گہرا اثر چھوڑا۔ آج چین میں تقریباً 25 ملین مسلمان آباد ہیں، جن میں اکثریت ہُوئی اور ایغور اقوام سے تعلق رکھتی ہے۔
مسجد کے خوبصورت صحن میں کچھ نمازی قرآن کی تلاوت میں مشغول تھے، جبکہ دیگر افراد عبا اور مقامی چینی لباس زیب تن کیے افطار کی تیاری کر رہے تھے۔ مغرب کی اذان سے چند لمحے قبل، سب نے خاموشی اور خشوع کے ساتھ دعا میں ہاتھ اٹھائے اور اپنے دلوں کو اللہ کے حضور حاضر کیا۔
جیسے ہی اذان کی روح پرور آواز گونجی، روزہ داروں نے میٹھی کھجوروں، خوشبودار چینی یاسمین چائے اور روایتی چینی نان سے روزہ افطار کیا۔ اس کے بعد، چینی-اسلامی کھانوں پر مشتمل مرکزی کھانے کی باری آئی۔ یہ افطار ایک دلچسپ امتزاج تھا—جہاں کھجور، سوپ اور نان جیسے روایتی اسلامی اجزاء موجود تھے، وہیں ہلکی مصالحہ دار ڈشز، منفرد چینی چائے اور خاص اندازِ پکوان نے اس افطار کو خالصتاً چینی رنگ دے دیا تھا۔
کھانے کے بعد، مسجد کے شبستان میں نمازِ جماعت ادا کی گئی۔ نمازی صفوں میں مکمل ترتیب اور خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوئے اور تراویح کی پرنور نماز ادا کی۔ ان لمحات میں اسلامی اخوت کے حسین جلوے دیکھنے کو ملے—چینی مسلمان، سیاح اور دنیا بھر سے آئے مسلم طلبہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ" (مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں) کی عملی تصویر پیش کر رہے تھے۔
چین کی اس مسجد میں افطار کا تجربہ ثقافت، تاریخ اور دین کے حسین امتزاج کا عملی نمونہ تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ چینی مسلمان، اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے، مقامی ثقافت کے ساتھ ایک خوبصورت ہم آہنگی پیدا کر چکے ہیں۔ یہ تجربہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اسلام جہاں بھی جاتا ہے، وہاں کی مقامی تہذیب میں ضم ہو کر اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے۔
رمضان، جغرافیائی سرحدوں سے بالاتر، دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان محبت، بھائی چارے اور روحانی یکجہتی کا ایک لازوال رشتہ قائم کرتا ہے—ایک ایسا رشتہ جو ایمان، اخلاص اور ہمدردی پر مبنی ہے۔/
4273388