انسان متوکل اور غیرمتوکل میں فرق

IQNA

توکل قرآن میں / 6

انسان متوکل اور غیرمتوکل میں فرق

4:34 - April 20, 2025
خبر کا کوڈ: 3518348
ایکنا: توکل کرنے والے انسان اور بے توکل افراد میں اصل فرق ان کے عقائد میں ہوتا ہے۔

ممکن ہے کہ متوکل شخص دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ سنجیدگی سے عمل کرے، مگر وہ اپنے عمل کو مؤثر و حقیقی سبب نہیں سمجھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو اصل فاعل جانتا ہے اور اسی پر اعتماد کرتا ہے، نہ کہ اسباب و وسائل پر۔

غیر متوکل انسان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ علم، مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے، یا روزی تجربے، کوشش اور علم سے ملتی ہے، یا مخصوص رویہ اسے عزت دیتا ہے۔ قرآن کریم قارون کے قول کو نقل کرتا ہے: «قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي» (قصص: 78)؛ "اس نے کہا: بے شک یہ سب کچھ مجھے میرے اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے" (القصص: 78) جبکہ متوکل انسان ہر طرح کی نعمت اور قدرت کو اللہ کی طرف سے ایک فضل سمجھتا ہے: "اس نے کہا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے" (النمل: 40)

متوکل انسان اسباب و ذرائع کو دنیا کا ایک نظام اور آلات سمجھتا ہے، اور اسی لیے وہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان اسباب میں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ جیسے قلم، لکھنے والے کے ہاتھ میں ایک آلہ ہے جو اس کی مرضی سے چلتا ہے، اسی طرح کائنات کے تمام اثر انداز ہونے والے اسباب بھی اللہ کی قدرت کے ہاتھوں میں ہیں اور صرف اسی کی مرضی و ارادے سے اثر ڈالتے ہیں۔

چنانچہ متوکل انسان اور غیر متوکل انسان میں فرق صرف عمل میں نہیں بلکہ دل کے یقین میں ہے۔ متوکل انسان اپنے دل سے اللہ کو اصل فاعل مانتا ہے اور اس پر اعتماد کرتا ہے، نہ کہ مال، اسباب، تعلقات یا سفارش پر۔ لہٰذا ان دونوں میں فرق عمل میں نہیں، عقیدے میں ہے۔ ممکن ہے متوکل شخص دوسروں سے زیادہ محنت کرے، مگر وہ اپنے عمل کو فیصلہ کن نہیں سمجھتا۔

البتہ اس عقیدے کا دعویٰ کرنا آسان ہے، لیکن اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل۔ اگر کوئی شخص ذمہ داری کے وقت مصلحت اندیشی کرے، کسی کے ناراض ہونے، خفا ہونے یا طاقت و اقتدار کے خوف سے اپنا فرض چھوڑ دے، تو یہ طرزِ عمل توکل کے حقیقی مفہوم سے میل نہیں کھاتا۔

اگر بندہ واقعی اللہ پر توکل کرنا چاہے تو اسے اللہ تعالیٰ کو ان تمام صفات کا حامل سمجھنا ہوگا جن سے وہ ہر معاملے میں اس پر بھروسہ کرسکے، خیر و بھلائی کے راستے کی طلب بھی اسی سے کرے، اور جو تقدیر اللہ نے مقدر فرمائی ہے اس پر اعتماد کرے۔ یہ سب کچھ معرفت و شناخت پر مبنی ہے اور اس کے بعد عمل اور اقدام کی باری آتی ہے۔ اس لیے توکل کے دو پہلو ہیں: ایک معرفتی اور دوسرا عملی۔

نظرات بینندگان
captcha