حجتالاسلام والمسلمین محمد مسجدجامعی، ویٹکن میں ایران کے سابق سفیر، نے پاپ فرانسیس، جو دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے رہنما تھے، کی وفات کے موقع پر " ادارہ اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈیز"سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کا پہلا حصہ "ایکنا" میں شائع ہوچکا ہے، جس میں پاپ فرانسیس کی سابقہ پاپ حضرات سے مختلف خصوصیات، ان کی طرز زندگی، غزہ کے بارے میں ان کے مؤقف، انسانی حقوق اور انسان دوستانہ امور کے دفاع، ان کے عراق کے دورے اور آیت اللہ سیستانی سے ملاقات جیسے اہم نکات بیان کیے گئے۔ اب اس گفتگو کا دوسرا حصہ "ایکنا" کو فراہم کیا گیا ہے، جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پاپ فرانسیس کی شخصیت اور رویے کے اہم پہلو
جب پاپوں کی شخصیت اور طرزِ عمل کا موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ میں نے کیتھولک کلیسا کے مذہبی شخصیات سے سنا کہ ہر پاپ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، ژان بیست و سوم جو 1958 میں پاپ بنے اور 1963 میں وفات پا گئے، بیسویں صدی کے سب سے محبوب پاپ تھے، خصوصاً اٹلی میں۔ وہ عوامی شخصیت تھے اور انہوں نے "شورائے واتیکان دوم" کے نام سے ایک بڑی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا، جس کے اہم دستاویزات آج بھی کیتھولک کلیسا کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ واحد پاپ تھے جنہیں سفارتی تجربہ حاصل تھا (ترکی اور فرانس میں سفیر رہے)۔
شورائے واتیکان دوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سفارتی تجربے نے پاپ ژان کو کلیسا کے نظام میں تبدیلی لانے کی سمجھ دی۔ یہ اصلاحات تین سال تک جاری رہیں اور ان کے بعد کے پاپ نے بھی انہیں جاری رکھا۔ یہ بات اہم ہے کہ جو فرد پاپ بنتا ہے، اس کی سابقہ زندگی، تجربات اور فکری تربیت پاپ کی حیثیت سے اس کے رویے کو متاثر کرتی ہے۔
پاپ فرانسیس کی فکری اور سماجی بنیاد
پاپ فرانسیس کا تعلق اطالوی نژاد خاندان سے تھا، لیکن وہ ارجنٹینا میں پیدا ہوئے۔ ارجنٹینا اور لاطینی امریکہ کے بہت سے ترقی یافتہ علاقوں میں یورپی نژاد افراد غالب ہیں، اور ان کی فکری اور ادبی تربیت یورپی انقلابی اور ضدِ سامراجی فکر سے متاثر رہی ہے۔ اس خطے کے لوگ فرانسیسی انقلاب کے بعد کی یورپی فکر اور روشن خیالی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاپ فرانسیس کا فکری سانچہ یورپی اور لاطینی امریکی نظریات کا امتزاج تھا۔
پاپ فرانسیس کی نوجوانی ایسے وقت میں گزری جب ارجنٹینا میں سیاسی و سماجی بےچینیاں تھیں، اور یہی فضا "الہیاتِ آزادی" (Liberation Theology) جیسے نظریات کے فروغ کا سبب بنی۔ انہوں نے خوان پرون جیسے رہنما کے زیر اثر سوچا، جو ایک قوم پرست اور عوام دوست صدر تھے۔
پاپ فرانسیس کی شخصیت پر اثرات
پاپ کی کشیشی، اسقفی اور کارڈینالی زندگی ارجنٹینا میں گزری، جہاں سادگی، خلوص اور عوامی روابط اہم خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔ پاپ فرانسیس ان خصوصیات کا پیکر تھے۔ ان کے انداز میں تکلف نہیں تھا، وہ عام لوگوں کے ساتھ بےتکلفی سے ملتے، اور مذہب کو روایتی الہیاتی اصطلاحات سے ہٹ کر سمجھتے تھے۔ ان کی زندگی میں غربا کے ساتھ رہنا، سادہ زندگی گزارنا اور بغیر پردہ پوشی کے سچ بولنا نمایاں تھا۔
فکری اثرات اور نظریاتی وابستگیاں
پاپ فرانسیس اومانیزم (انسان دوستی) پر مبنی یورپی ادب اور جدید ماحولیاتی فکر سے بھی واقف تھے۔ ان کی تحریروں اور بیانات میں سرمایہ داری، ماحولیاتی بربادی، اور اسلحہ سازی پر سخت تنقید ملتی ہے۔ ان کا نقطہ نظر جذباتی نعروں پر مبنی نہیں بلکہ سائنسی اور حقیقت پسندانہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بڑی کمپنیاں کس طرح قدرتی وسائل کا استحصال کرتی ہیں اور ماحولیاتی نظام کو تباہ کرتی ہیں۔
وہ کارڈینال مارتینی، جو ایک اصلاح پسند اور آزاد خیال شخصیت تھے، سے متاثر تھے۔ نیز، وہ مارٹن لوتر، پروٹسٹنٹ اصلاحات کے بانی، کی پانچ سو سالہ تقریبات میں شریک ہوئے اور خطاب کیا، جس پر قدامت پسند کیتھولکوں نے تنقید کی۔ وہ کشیشوں کی شادی، خواتین کا پادری بننا، اور طلاق یافتہ خواتین کے لیے عشائے ربانی میں شرکت جیسے موضوعات پر نسبتاً لچکدار موقف رکھتے تھے، اگرچہ ان پر کھل کر بات نہیں کی۔
کلیسا کے داخلی مسائل پر مؤقف
پاپ فرانسیس نے جنسی اور مالی بدعنوانی کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ اگرچہ یہ بدعنوانی پرانی ہے، مگر انہوں نے اسے نظر انداز نہیں کیا بلکہ شفاف مؤقف اختیار کیا، چاہے وہ واقعات چلی، بیلجیم، آسٹریا، آئرلینڈ یا امریکہ میں پیش آئے ہوں۔ وہ ایک یسوعی (Jesuit) تھے، جو کیتھولک کلیسا کا ذہنی ستون سمجھے جاتے ہیں۔ یہ گروہ اپنی سخت تربیت، ذہانت اور انقلابی سوچ کے لیے جانا جاتا ہے، خصوصاً لاطینی امریکہ میں۔
مستقبل کے پاپ کے لیے پیش گوئی
کیتھولک کلیسا ایک منظم، قدیم اور طاقتور ادارہ ہے، اور پاپ کا انتخاب ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہوتا ہے، جو کلیسا کی ضروریات، عالمی حالات، اور بین المذاہب تعلقات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاپ کے لیے جن ناموں پر غور ہو رہا ہے، ان میں پیترو پارولین (موجودہ وزیر اعظم واتیکان)، ماتئو زوپی (اسقف اعظم بولونیا)، کارڈینال تاگلے (فلپائن) اور ایک افریقی کارڈینال شامل ہیں۔ تاہم، فیصلہ ہمیشہ کلیسا کے مرکزی حلقے کی رائے سے کیا جاتا ہے، جو محض قرابت داری یا مقبولیت پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ کلیسا کو کس قسم کی قیادت کی ضرورت ہے۔
پاپ فرانسیس کا انتخاب بھی ایسی ہی ایک ضرورت کا نتیجہ تھا، جب کلیسا بحران کا شکار تھا اور اسے ایک نئی زندگی دینے کی ضرورت تھی۔ ابتدا میں وہ اس میں کامیاب رہے، لیکن بعد میں یورپی مذہبی حلقوں سے انہیں مزاحمت کا سامنا ہوا۔/
4279105