بینالمللی قاری قرآن، مهدی غلامنژاد نے ایکنا کے ساتھ گفتگو میں صہیونی حکومت کے ایران پر حملے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"جنگ کا آغاز صہیونی بچوں کے قاتل جعلی رژیم نے کیا، جو جنگ کے طویل ہونے سے خوفزدہ تھا اور چاہتا تھا کہ کسی 'عزت دارانہ' راستے سے اس بحران سے نکل جائے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکہ کی مداخلت سے وہ ایک نمائشی کارروائی کے ذریعے ایران کو مرعوب کر دیں گے اور اپنی جان بچا لیں گے۔"
وعدہ صادق ۳ اور عوامی و عسکری مزاحمت
مهدی غلامنژاد کا کہنا تھا : "وعدہ صادق ۳ آپریشن، مسلح افواج کی کارکردگی اور عوام کی مکمل حمایت نے ثابت کر دیا کہ ملت ایران کسی بھی قیمت پر اس غاصب رژیم کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔ اب بہترین موقع ہے کہ ہم اس تاریخی ہدف کو عملی جامہ پہنائیں اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب اس کا تحقق دیکھیں گے۔"
قرآنی بصیرت، صبر و استقامت:
انکا کہنا تھا : "یقیناً یہ جنگ ہمارے لیے بھی مشقتیں اور قربانیاں لے کر آئی ہے۔ کئی سردار، جوہری سائنسدان اور معصوم شہری شہید ہو چکے ہیں، لیکن قرآن ہمیں سست ہونے یا مایوس ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارا عزم مضبوط رہنا چاہیے تاکہ ہم اپنے حتمی مقصد یعنی صہیونی رژیم کی نابودی تک پہنچ سکیں۔"
انکا کہنا تھا : "قرآنی برادری کو چاہیے کہ کلامِ وحی کے ساتھ انس کو عام کرے تاکہ عوام کی آگاہی میں اضافہ ہو۔ میں نے خود ایسے لوگوں کو، جو تذبذب میں تھے، قرآنی آیاتِ امید کے ذریعے تسلی دی ہے، کیونکہ یہ آیات گویا انہی دنوں کے لیے نازل ہوئی ہیں۔"
انہوں نے سورہ آل عمران کی آیت 139 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا : "وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ" (کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مؤمن ہو)
ان کا کہنا تھا : "یہ آیت مؤمنین کو پکارتی ہے کہ وہ حوصلہ اور امید قائم رکھیں۔ کامیابی ایمان کے ساتھ مشروط ہے، اور یہی ایمان دشمن پر فتح کی کلید ہے۔"
انہوں نے قرآن میں مذکور حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کی داستان بیان کرتے ہوئے کہا: "جب وہ فرعون کے لشکر سے بھاگے اور سمندر تک پہنچے تو کچھ لوگ مایوس ہو گئے۔ لیکن حضرت موسیٰؑ نے اللہ کے وعدے پر یقین رکھا۔ آخرکار خدا نے سمندر کو چیر کر ان کی نجات کا راستہ بنایا۔ یہ ایمان کا امتحان تھا۔ آج ہمیں بھی ان واقعات کو عوام کو سنانا چاہیے تاکہ الہی وعدوں پر یقین پختہ ہو۔"
ان کا کہنا تھا : "قرآن مظلوموں کی حمایت کا حکم دیتا ہے، اور یہ جنگ بھی فلسطین اور غزہ کے نہتے عوام کی حمایت کے لیے ہے۔ ہم غزہ کے بچوں اور مظلوموں کے لیے اس جعلی صہیونی رژیم کے خاتمے تک لڑتے رہیں گے۔"
گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا : "قرآنی اداروں کو اب صرف تقریبات اور رسمی نشستوں سے آگے بڑھ کر میدانِ عمل میں آنا چاہیے۔ جب قوم کے تمام طبقات میدان میں ہیں، تو قرآنی برادری کی شرکت بھی عملی، متحرک اور مؤثر ہونی چاہیے۔"