
ایکنا نیوز - اسلامی برادری بھی انہی اصولوں میں سے ایک ہے جو سماجی تعاون اور معاشرے کے ضرورت مندوں و محروموں کی کفالت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ قرآن اور احادیث میں بھی اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» — "یقیناً مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں" (سورۃ الحجرات: ۱۰)۔ اسلام نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تاکہ مفادات کے تصادم کو اشتراکِ مفاد اور ہم دلی میں تبدیل کیا جائے؛ پس چونکہ وہ بھائی ہیں، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔
لہٰذا اگر کسی معاشرے میں کوئی فقیر موجود ہو تو ایک مسلمان کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ بھوکا اور بے گھر رہے، جب کہ اس کے پاس اپنی اور اس کی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت موجود ہو۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: مؤمنوں کی باہمی محبت، رحم و شفقت اور ہمدردی کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
معاشرہ سازی کے لیے ایک اصول
بنیادی طور پر انسان اپنی زندگی کی خوش بختی اور کمال تک رسائی کے لیے بعض ایسی ضروریات رکھتا ہے جنہیں وہ تنہا پورا نہیں کرسکتا؛ اسی لیے اسے معاشرہ تشکیل دینا اور باہمی تعاون اختیار کرنا ضروری ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیاد ہی تعاون، اشتراکِ عمل اور مفادات کے تبادلے پر رکھی گئی ہے، بلکہ بعض مفکرین کے مطابق، تعاون اور معاشرت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
افرادِ معاشرہ میں جسمانی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے پائی جانے والی تفاوتیں بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔ اسی تناظر میں اسلام نے تعاون کو ایک اخلاقی و فکری ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے اور خیر خواہی، نیکی میں سبقت اور ایک دوسرے کی مدد کی تاکید کرتے ہوئے مؤمنین کو ہر اس تعاون سے منع کیا ہے جو بدی، ظلم یا سماجی نابرابری کو فروغ دے۔
اسلامی روایات کے مطابق، مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں، جن میں سے ایک مالی مواسات (مالی اشتراک و تعاون) ہے۔ اس کی ایک مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب بازار میں کسی چیز کی کمی ہو، تو مسلمان اپنی ضرورت سے زائد مال میں دوسروں کو شریک کرے۔
امام جعفر صادقؑ کے خادم بیان کرتے ہیں: امامؑ نے مجھ سے فرمایا: مدینہ میں اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، ہمارے پاس کتنی خوراک ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنی کہ کئی مہینوں کے لیے کافی ہے۔ امامؑ نے فرمایا: اسے بازار میں لے جا کر بیچ دو۔ جب میں نے فروخت کر دی، تو امامؑ نے فرمایا: اب روزانہ لوگوں کے ساتھ بازار سے خوراک خریدو اور میرے گھرانے کے لیے آدھی جو اور آدھی گندم کا کھانا مقرر کرو۔ اللہ گواہ ہے کہ میں ان کے لیے مکمل گندم فراہم کرنے کی استطاعت رکھتا ہوں، مگر میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے اس حالت میں دیکھے کہ میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتا ہوں۔/