ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر وزیراعظم سے جاری بیان کے مطاق ملاقات میں دو طرفہ تعاون اور کووڈ 19 کی صورتحال پر تبادلہ کیا گیا۔
مزید برآں 'وزیراعظم عمران خان اور سعودی سفیر نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط اور دیرینہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا'۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے 3 ارب ڈالر کی دوسری قسط میں ایک ارب ڈالر کی واپسی کا معاملہ موضوع بحث بنا تھا جسے بہت سوں نے جیوپولیٹکل اختلافات پر دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کشیدگی کے طور پر دیکھا تھا۔
سعودی عرب نے 2018 میں پاکستان کو 3 سال کی مدت کے لیے 3 ارب ڈالر فراہم کیے تھے تا کہ ملک ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نکل سکے جس کا اس کو اس وقت سامنا تھا۔
اس کے علاوہ مملکت نے اس وقت 3.2 ارب ڈالر کا ادھار تیل فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا لیکن یہ سلسلہ پہلے سال کے بعد ہی تھم گیا تھا۔
سعودی عرب کی جانب سے یہ نقدی قرض اب میچیور ہوچکا تھا اور توقع یہ تھی کہ ریاض، پاکستان کی مشکل مالی صورتحال بالخصوص کووِڈ 19 کے باعث درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے قرض کو رول اوور کردے گا۔
ماضی میں سعودی عرب کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کبھی اصرار نہیں کیا گیا لیکن اس مرتبہ ایسا نہ ہوا اور ریاض سے آنے والا پیغام واضح تھا کہ وہ اپنی رقم واپس چاہتے ہیں۔
پاکستان اب تک چین کی مدد سے سعودی عرب کو 2 ارب ڈالر واپس کرچکا ہے اور آئندہ ماہ تک ایک ارب ڈالر کی آخری قسط بھی ادا کرنے والا ہے۔
کچھ افراد کا خیال ہے کہ سعودی رویہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت بالخصوص ترکی اور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے تلخ ہوا۔
تاہم بہت سے عہدیداران سعودی قرض رول اوور کروانے میں ناکامی کے باوجود اب بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی تجدید کے حوالے سے پُر اُمید ہیں۔
شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کا آئندہ ماہ اسلام آباد کا دورہ کرنے کا امکان ہے جبکہ توقع ہے کہ ایک پاکستانی وفد بھی اس کے فوراً بعد ریاض کا دورہ کرے گا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی طاہر اشرفی جو نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ بھی ہیں، نے ان دعوؤں کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سعودی عرب کی جانب سے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے'، مزید یہ کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات گزشتہ عشرے کے مقابلے عروج پر ہیں۔