ڈان نیوز کے مطابق گزشتہ روز سیالکوٹ کی فیکٹری کے ملازمین کی جانب سے تشدد کے نتیجے میں منیجر کی ہلاکت پر مفتی تقی عثمانی نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ ’توہين رسالت انتہائی سنگین جرم ہے لیکن اس کے ارتکاب کا ثبوت ضروری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی پر یہ سنگین الزام لگا کر خود ہی اسے وحشیانہ اور حرام طریقے سے سزا دینے کا کوئی جواز نہیں، سیالکوٹ کے واقعے نے مسلمانوں کی بھونڈی تصویر دکھا کر ملک و ملت کو بدنام کیا ہے‘۔
دوسری جانب رویت ہلال کمیٹی کے سابق سربراہ مفتی منیب الرحمٰن نے بھی واقعے کو ناخوشگوار قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ملک میں قانونی نظام موجود ہے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا جواز نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے دنیا میں پاکستان کے منفی تاثر نے جنم لیا ہے، ویسے ہی کئی برسوں سے پاکستان پر ’ایف اے ٹی ایف‘ کی تلوار لٹک رہی ہے۔
ادھر مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سیالکوٹ واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کرنے والا گروہ اور مذہبی جنونیت ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ دین اسلام اور وطن عزیز کے تشخص کو داغدار کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، جرم و سزا کا تعین ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست بھی بلاتحقیق کسی کو سزا نہیں دے سکتی، ملزمان نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا اگر ایسے واقعات کو طاقت کے ساتھ روکا نہ گیا تو ہم دنیا کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔