ایکنا نیوز- آیت 40 سوره نازعات میں کہا گیا ہے: «وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى:
اور جو خدا کے مقابل خوف محسوس کرنے لگے اور خود کو ہوس پرستی سے دور رکھا" اس آیت کے رو سے جنت میں جانے کی ایک شرط" خوف خدا" ہے جو خدا سے ڈرے اور نفس پرستی سے دور رہے۔
خدا سے خوف اس وقت محسوس کیا جاتا ہے جب انسان رب کی عظمت و بزرگی کو جان لے تو یہ شناخت خوف ایجاد کرتی ہے، جو خوف علما اور اہل علم خدا سے محسوس کرتے ہیں وہ اسی شناخت کا نتیجہ ہے جیسے حضرت موسی (ع) کے ساتھ کوہ طور پر ہوا۔
«وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ:
اور جب موسی وعدہ گاہ پر پہنچے اور رب نے ان سے خطاب کیا تو اس نے کہا : اے میرے رب مجھ اپنے جلوہ دکھا دے تو جواب ملا کہ مجھے کبھی نہ دیکھ سکو گے لیکن پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ پر رہا تو مجھے جلد دیکھوگے جب خدا کا پہاڑ پر جلوہ ہوا تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسی وہی پر بیہوش ہوگیے اور زمین پر گر پڑا اور جب ہوش میں آیا تو کہا رب کی ذات منزہ ہےمیں نے توبہ کی اور پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہوا» (اعراف/ 143).
درست شناخت خدا سے خوف کی وجہ بنتی ہے کہ انسان خدا کو خود پر ناظر و حاضر سمجھے، ایسی حالت انسان میں حیا اور خوف پیدا کرتی ہے، عرفا کا نظریہ ہے کہ خدا کے حضور شرم و حیا کا احساس تقوی کا عمدہ نمونہ ہے اگرچہ یہ سب کے لیے واضح نہیں۔/
یونیورسٹی اور مدرسہ استاد سیدمصطفی محققداماد کی گفتگو سے اقتباس