ایکنا نیوز-کلمه «تین» انجیر کے معنی میں صرف ایک بار آیا ہے وہ بھی سوره «تین» میں جہاں
خدا تین کی قسم کھاتا ہے: «وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ؛ وَطُورِ سِينِينَ؛ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ: قسم ہے انجير و زيتون؛ اور طور سينا کی؛ اور اس شھر امن کی» (تین/ 1 تا 3).
اس حوالے سے کہ «تین» و «زیتون» کیا ہیں مختلف نظریات موجود ہیں اور مفسرین جب ابتدائی آیات کی بات کرتے ہیں تو دو نظریے پیش کرتے ہیں ایک یہ کہ سورہ تین کی ابتدائی آیات کے رو سے پہلی دو قسموں کے درمیان (تین و زیتون) اور دو بعد کی قسمیں (طور سینین و بلد امین) میں رابطہ ہونا چاہیے اور اسی دلیل کی بناء پر کہا ہے کہ «تین» و «زیتون» خاص مکانوں کے نام ہے۔
«طور سینین» وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسی(ع) نے مصر سے واپسی پر یہاں خدا سے کلام کیا ہے اور مقام رسالت پر فایز ہوئے. «بلد امین» مکه ہے. جب ابراهیم (ع) نے اپنے بیٹے اسماعیل(ع) کے ساتھ کعبہ کے کام کو مکمل کیا اور دعا کی: «رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا: پروردگارا اس [سرزمين] کو امن کا شھر بنا دے» (ابراهیم/ 35).
اس نظریے کے مطابق «تین» و «زیتون» بھی مقامات کے نام ہیں جو شمالی حجاز (موجود سعودی عرب) اور فلسطین و شام کے بعض علاقے ہیں. یہ دو علاقے کافی انبیاء کے جائے پیدائش و پرورش بتائے جاتے ہیں۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ «تین» و «زیتون» اپنے حقیقی معنوں یعنی دو پھلوں کے نام ہے. اس صورت میں اسکا «طور سینین» اور «بلد امین» سے کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟
مفسرین بتاتے ہیں کہ پہلی دو قسم خوراک بارے ہیں اور انکی قسم کھائی گیی ہے جب کہ بعد کے دو قسم انسان کی جان و روح بارے ہیں۔
اس صورت میں بعد کی آیت پر نظر رکھنے چاہیے: «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ: [كه] ہم نے انسان کو بہترین حالت میں خلق کیا ہے» (تین/ 4). لہذا اس بناء پر انسان جسم و روح دونوں حوالوں سے بہترین حالت اور امکانات کے ساتھ متعادل اور متوازن، خوبصورت ترین شکل میں خلق کیا گیا ہے۔/