ایکنا نیوز کے مطابق آخری عشروں میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مختلف شعبوں میں خواتین کے لیے کام کرنا آسان ہوچکا ہے، جہاں خواتین مختلف ممالک میں کم مزدوری کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں تاہم بعض ممالک میں صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔
اسلامی ممالک میں حالات کچھ مختلف ہیں اور بعض ممالک میں روایتی تعصب اور منفی افکار کی وجہ سے خواتین علمی اور تحقیقی شعبوں کی طرف کم مائل ہوتی ہیں حالانکہ اسلام میں خواتین کی تعلیم بارے کوئی قید و بند نہیں۔
حیات سندی(Hayat Sindi) چھ نومبر ۱۹۶۷، کو سعودی عرب میں پیدا ہوئی ہے جو سعودی عرب کی سعودی خواتین مشورتی کونسل کی رکن ہے جنہوں نے سعودی خواتین بارے تصورات کے برعکس ایک دانشور خاتون کی حیثت سے خدمات انجام دی ہے۔
بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں انکی تحقیقات نے تاریخ رقم کی ہے اور انکو ایک ذمہ دار علم دوست خاتون کی حیثیت سے پیش کردیا ہے۔
علمی تحقیقات کے علاوہ انہوں نے خواتین میں علمی خدمات اور آگاہی بڑھانے کے حوالے سے بھی بہترین کاوشیں انجام دی ہیں۔
حیات سندی لندن کنگ کالج، ماساچوسٹ ٹیکنکل انسٹیٹوٹ اور ھارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔
سال ۲۰۰۱ بائیوٹیکنالوجی میں انہوں نے کمبریج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، انکو خلیج فارس کے ممالک میں پہلی خاتون کی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے اس فیلڈ میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔
2012 میں ایک نیوز سے گفتگو میں حیات سندی کا کہنا تھا کہ ایک دانشور نے کہا کہ تم شکست کھا جاوگی اگر تم نے حجاب ترک نہ کیا. تاہم میں نے اس تصور کو شکست دی اور کامیابی حاصل کی.
سال ۲۰۱۲، کو Arabian Business نے انکو دنیا میں انیسویں موثر ترین فرد اور خواتین میں نویں موثر ترین شخصیت قرار دیا۔ سال ۲۰۱۸، کو بی بی سی نے انکو دنیا کے سو موثر ترین خواتین کی فہرست میں قرار دیا ۔/
4136481