ایکنا نیوز- انسان کی تربیت میں ایک اہم عامل مدارا کرنا ہے مدارا یعنی درگزر سے کام لینا، غلطیوں کو نظر انداز کرنا اور معاملہ نبھا کر چلنا ہے یہ ایسا رویہ ہے کہ اس بارے کہتا پڑتا ہے کہ مدارا سے انسان مخالف کو موافق اور موافق کو بہترین دوست بنا سکتا ہے۔
انسان اگر سختی اور بدرفتاری سے کام لے گا تو اس سے دوست اور ہمراہ دلگرفتہ ہوجائیں گے اور حتی کسی ولی یا پیغمبر کا بھی ساتھ نہیں دیں گے لہذا یہ رویہ انسانی اخلاق کا بنیادی اصول ہے۔
حضرت ابراهیم (ع) اولولعزم پیغمبروں میں سے ہے اور خدا نے انکا متعدد جگہوں پر ذکر کیا ہے مثال کے طور پر جب نامعلوم مہمان حضرت ابراہیم کے ہاں آئے مگر جب حضرت ابراهیم (ع) کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی خاص مقصد کے لیے آئے ہیں اور قوم لوط پر عذاب لانا چاہتے ہیں تو ابراهیم (ع) ان سے بحث شروع کرتے ہیں.( تاکہ اگر ممکن ہو تو قوم لوط سے عذاب ٹال دے)
«فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ الرَّوْعُ وَ جَاءَتْهُ الْبُشْرَى يجَادِلُنَا فىِ قَوْمِ لُوط ؛ جب ابراہیم سے خوف دور ہوا، اور اسکو خوشخبری ملی، تو قوم لوط بارے بحث کرنے لگا.»(هود:74)
حضرت ابراهیم (ع) کی بحث خدا کی مخالفت میں نہ تھی بلکہ اس وجہ سے بحث کرنے لگا کہ وہ حد درجہ مہربان تھا وہ امکان ظاہر کررہا تھا کہ شاید قوم لوط توبہ کرے یا خواب غلفت سے بیدار ہوجائے لہذا وہ ان مہمانؤں سے بحث کرنے لگے۔. آیت 75 سوره هود ۔
اس سے پہلی والی آیت میں اس بارے بات ہوتی ہے:« إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُّنِيب ؛ کیونکہ ابراهيم، بردبار اور دلسوز و توبہ کرنے (خدا کی طرف) والا تھا.»(هود:75)
اللہ تعالی سورہ حج کی ایک اور آیت میں مسلمانوں کوآئین ابراهیم(ع) کی پیروی کی تاکید کرتا ہے
:« وَ جَاهِدُواْ فىِ اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَئكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فىِ الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّئكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَ فىِ هَاذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكمْ وَ تَكُونُواْ شهَدَاءَ عَلىَ النَّاسِ فَأَقِيمُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتُواْ الزَّكَوةَ وَ اعْتَصِمُواْ بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَئكمْ فَنِعْمَ الْمَوْلىَ وَ نِعْمَ النَّصِير ؛
اور خدا کی راہ میں جهاد كرو اور اسکا حق ادا کرو، اس نے تھمیں انتخاب کیا اوردين (اسلام) کے ساتھ تم پر سخت کام نافذ نہیں کیا اور اپنے جد ابراہیم کی پیروی کیجیے، خدا نے گذشتہ کتابوں اور اس کتاب میں تمھیں "مسلمان" قرار دیا تاکہ رسول تم پر گواہ رہے اور تم لوگوں پر گواہ رہو، پس نماز برپا کرو اور زکات دیا کرو اور خدا سے تمسک کرو کہ وہ تمھارا موالا اور سرپرست ہے، کیا خوب مولا اور کیا خوب مدد کرنے والا ہے!»(حج:78)
لہذا ابراهیم خلیل الرحمان (ع) عملی رویے (قوم لوط سے بحث) اور دوسرے لین دین (اشاره به آیت 78 حج) میں مدارا اور نرم رویے سے کام لیتے تھے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے مربی اور استاد تھا وہ لوگوں کو دین خدا سے روگردان نہ کرتے اور آسانی سے کام لیتے۔/