ایکنا نیوز- سوره واقعه میں رب العزت فرماتا ہے کہ پاکیزگی سے حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے،
آیت 79 سوره واقعه میں فرماتا ہے: «إِنَّهُ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ فىِ كِتَابٍ مَّكْنُون لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون؛ کہ وہ، قرآن كريم ہے، جو کتاب محفوظ میں ہے، اور پاک افراد کے علاوہ کوئی اس پر نہیں پہنچ سکتا (رسائی نہیں)» (واقعه:77 الی 79).
پاکیزہ افراد کے لیے دو صورت بیان ہوئی ہے:
امام رضا (ع) میں فرماتے ہیں: خدا نے حکم دیا ہے کہ وضو کرے اور نماز کو وضو سے شروع کرے تاکہ خدا کے حضور میں وہ پاک و تسلیم کی حالت میں جائے۔
احزاب میں پاکیزہ افراد کی یوں تعریف کرتا ہے: ُ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا ؛ خدا چاہتا ہے کہ نجاست اور گناه کو تم اہل بیت سے دور رکھے اور تمھیں مکمل پاکیزہ رکھے.»(احزاب:33)
اس آیت کی تفسیر میں کہا جاتا ہے کہ اہل بیت سے مراد کے حوالے سے زوجہ پیامبر سے روایت ہے کہ: رسول خدا (ص) نے ایک عبا تیار کیا اور اس کو اوڑھا اور سوگیے کہ فاطمہ پہنچی اس کے ہاتھ میں ایک ظرف بھی تھا جسمیں غذا تھی رسول خدا نے فرمایا کہ اپنے دونوں بیٹے حسن و حسین کو بلاو، فاطمہ کے فرمان پر دونوں بیٹے حاضر ہوئے، جب یہ سب ملکر کھانا کھا رہے تو یہ آیت نازل ہوئی
: «إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً». تب رسول خدا (ص) نے عبا کے کچھ حصہ ان پر ڈالا اور پھر ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی: بار الها یہ میرے اهل بيت ہیں، اور میرے خاص لوگ ہیں، پس نجاست کو ان سے دور رکھ ، انکو طاہر بنا اور تین بار یہ جملہ دہرایا۔
اس روایت اور بعض دیگر روایات کے مطابق اهل بیت(ع) سے مراد چودہ معصومین ہیں جس سے خدا نے ہر گناہ کو دور رکھا ہے۔ لہذا اهل بیت عصمت و طهارت ہی وہ لوگ ہیں جنکو قرآن کی حقیقت پر رسائی حاصل ہے اور انکے سوا کسی کو رسائی نہیں۔/