ایکنا کی رپورٹ کے مطابق شب 17 ربیع الاول کو نماز مغربین کی نماز مسجد کے امام راتب حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا نجیب الحسن صاحب کی اقتدا میں منعقد ہوئی اور نماز کے فورا بعد جشن کا اغاز تلاوت کلام الہی سے ہوا۔
تقریب کی پہلی تقریر دہلی سے آئے ہوئے محترم مہمان حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا محمد باقر رضا سعیدی صاحب نے کی۔ آپ نے قران مجید کے سورہ علق کی ابتدائی آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے واضح کیا کہ پروردگار کی سب سے پہلی وحی اور عرش اعظم سے نازل ہونے والی سب سے پہلی ایتوں اور سب سے پہلے سورہ میں پڑھنے کا بھی تذکرہ ہے اور قلم کے ذریعے تعلیم دینے کا بھی تذکرہ ہے، وہ تعلیم جو خداوند عالم نے دی۔ آپ نے سوال کیا کہ خداوند عالم نے یہ تعلیم کس کو دی ظاہر سی بات ہے کہ اس تعلیم کا سب سے اعلی مصداق پیغمبر اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکت ہے تو جب اللہ نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی ہے اس وجہ سے یہ ماننا پڑے گا کہ پیغمبر اسلام اللہ کی طرف سے صاحب علم و معرفت ہیں۔ اگر ہم نعوذ باللہ پیغمبر اسلام کو ان پڑھ کہیں گے تو ہمیں لاشعوری طور پر اس لازمہ کا سامنا کرنا ہوگا کہ یا تو خدانخواستہ اللہ نے تعلیم صحیح نہیں دی یا پیغمبر اسلام نے نعوذ باللہ تعلیم دینے کے باوجود سیکھا نہیں۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلام کو ان پڑھ کہنا نادانی اور کم فہمی کی نشانی ہے۔
آپ نے تقریر کے دوسرے حصے میں چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا تذکرہ کیا اور سائنس میں اپ کے شاگرد جناب جابر ابن حیان کا ذکر فرمایا۔
تقدیر کے اختتام پر آپ نے اپنا کہا ہوا ایک قطعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ایک قطعہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی شان میں پڑھا جس کی تفصیل مندرجہ زیل ہے:
چاند سورج کا سائبان تھا وہ
آسمانوں کا آسمان تھا وہ
تھا وہ باشندہ عرش اعظم کا
اس زمیں پر تو میہمان تھا وہ
چاروں مذہب کے بانی و مالک
ماہر علم و مذہب ومنطق
کہتے ہو تم امام جن جن کو
سب ہیں شاگرد جعفر صادق ع
اس کے بعد ممبئی کی مسجد کے امام جناب حجت الاسلام والمسلمین عزیز حیدر صاحب نے تقریر کی۔
اپ نے قرآن مجید کے سورہ جمعہ کی ابتدائی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ اس سورہ میں اللہ نے اپنی چار صفتیں بیان کی ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی چار صفات کو ذمہ داری کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔
اپ نے ان چاروں ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے حکمت کی تعلیم کے حوالے سے دلیل پیش کی کہ جب حکمت کی ذمہ داری رسول کریم کی ہے تو اس کا مطلب رسول کے بغیر قرآن کو سمجھا نہیں جا سکتا اور عرب کے عرب زبان ہونے کے باوجود قرآن کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
اس کے بعد حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا سید عادل زیدی صاحب نے بڑے اچھے ترنم کے ساتھ ایک قصیدہ پیش کیا جو مسجد ایرانیان کے امام جناب مولانا نجیب الحسین صاحب کی تخلیق تھا۔ اس قصیدے کے اشعار مندرجہ ذیل تھے:
چھا جائے تخیل پہ جو تنویر محمد
ڈھل جائے ہر اک لفظ میں تصویر محمد
احساس جو کرتا ہے وضو آب خرد سے
ہوتی ہے مری فکر بغلگیر محمد
پتھر کا جگر توڑ دوں اور دل میں سماؤں
الفاظ کو مل جائے جو تاثیر محمد
خوابوں کا حقیقت سے نہیں کرتا میں سودا
ملتی ہے مرے خوابوں کو تعبیرِ محمد
خون ِ دل عمران کا رنگ اس میں ہے شامل
ہے آج جو آئینِ جہاں گیرِ محمد
انداز بدل جائے گا اس دورِ محن کا
تبلیغ، جو ہو جائے بتدبیر محمد
کہتے ہیں زبانوں سے جو تکبیر محمد
کرتے ہیں عمل سے وہی تکفیر محمد
وہ آج مسانید ہیں لٹکائے گلے میں
جو آئے نہ کل در پئے تحریرِ محمد
ارفع ترے افکار ثریا سے ہیں چونکہ
افکار کے دامن پہ ہے تصدیر محمد
کیوں جبر ہے اس بات پہ باھم نہ ادا ہوں ؟
اک ساتھ نمازوں پہ ہے تخییر محمد
اسکا نہ جواب آج تلک لایا ہے کوئی
مقتل میں جو لکھی گئی تفسیر محمد
صورت میں شھہدوں کے کہیں مرتا ہے کوئی
اوڑھے ہوئے خون زندہ ہے تصویر محمد
ائے شیخ سوئے کرب و بلا جا کے اٹھا لے
ذروں میں نہاں رکھی ہے اکسیر محمد
کمزور اسے کرنا ہے گھر اپنا گرانا
مرجع ہی زمانے میں ہے شہ تیر محمد
ہر ایک بشر موت سے گھبراتا ہے دکھتا
ہنستا ہے مگر موت پہ بے شیر محمد
کوفہ میں کہاں ثانی زہرا ع کہیں بولیں
لہجے میں علی ع کے ہوئی تقریر محمد
اپنے ہی جلے بیٹھے ہیں شعلوں میں جلن کے
جلنے کا سبب آیہ تطہیر محمد
برجستہ یہی نکلے ہے بوذر کو جو دیکھوں
رعنائیِ دل،دل کا سکوں پیرِ محمد
جبرئل بھی پر اپنے سمیٹے ہیں جہاں پر
جاتی ہے وہاں تک حدِ تسخیر محمد
آسودہء خرمن سے کوئی جاکے یہ کہہ دے
خوں دینے سے بچ پاتی ہے جاگیر محمد
قرآن نے اجمال فقط پیش کیا تھا
اور خم میں ہوئی آن کے تفسیرِ محمد
وہ اور نہیں باپ تھا حیدر سے پسر کا
جس شخص کے گھر میں ہوئی تعمیر محمد
حیدر کی صدا آنے لگی بابِ کرم سے
میں نے جو ہلائی ذرا زنجیر محمد
دنیا میں نجیب اتنا تصادم نہیں ہوتا
قرطاس پہ آجاتی جو تحریرِ محمد
اس کے بعد ناظم نے حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا صابر صاحب کو دعوت دی۔ مولانا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حدیث کی رو سے معصوم ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر تم نے چھ چیزوں کی پابندی کر لی تو میں تمہارے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ چھ چیزیں یہ ہیں: جب بات کرو تو جھوٹ نہ بولو، جب وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو، کوئی تمہیں امانت دے تو اس میں خیانت نہ کرو، اپنی عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کرو، نامحرموں سے اپنی انکھوں کو بچائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو۔
اس کے بعد مسجد ایرانیان کے امام حجت الاسلام و المسلمین جناب مولانا نجیب الحسن زیدی صاحب نے اپنا ایک بہترین قصیدہ پیش کیا جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
کہہ رہا ہے ہر بشر سے دینِ ناب مصطفی ع
امن ہو دنیا میں قائم ہے یہ خواب مصطفی ع
ذات کیا ہے مصطفی ع کی یہ بتائیں گے علی
مرتضی کیا ہیں بتائیں گے جناب مصطفی
مجھکو صہا و سبو سے یوں نہیں کوئی شغف
ساقی کوثر سے پینا ہے شراب مصطفی ع
کیوں علی ع کے در سے ہیں بیزار کچھ اصحاب خاص۔
باب حیدر ہی حقیقت میں ہے باب مصطفی ع
آج دنیا میں خرد بدنام نہ ہوتی نجیب
گر مسلماں غور سے پڑھتا کتاب مصطفی ع
سب سے آخر میں خوجہ مسجد کے امام حجت الاسلام والمسلمین جناب مولانا روح ظفر صاحب نے تقریر فرمائی۔ آپ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی اور ہندوستان کے موجودہ مسائل اور حالت حاضرہ کے تحت اوقاف کے مسئلے کی طرف مومنین کی توجہ مبدول کرائی اور کہا کہ ہندوستان میں اوقاف کسی ایک اسلامی فرقے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر مسلمان کو اوقاف کے بارے میں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اپنے تئیں جو بھی کچھ کر سکتا ہے اسے انجام دینا چاہیے۔
محفل کی نظامت جناب علی اصغر حیدری صاحب نے اپنے بہترین لب و لہجے اور تجربہ کارانہ انداز نظامت سے انجام دی اور ابتدائی لمحات میں آپ کے فرزند ارجمند نے خود اپنا کلام اپنی زبان سے پیش کیا جس کو مومنین اور علماء کی جانب سے کافی پذیرائی ملی۔