ایکنا نیوز کے مطابق جلسہ کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا، جسے جناب معجز عبّاس صاحب نے اپنی دلسوز آواز میں پیش کیا۔ نظامت کے فرائض جناب وصی جلالپوری صاحب نے انجام دیے۔
شہادت کی اہمیت اور شہدا کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب وصی جلالپوری صاحب نے لبنان کے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہدا کے ایثار و فداکاری کا تذکرہ کیا اور اس بات کو بیان کیا کہ شہداء کی یاد کیوں ضروری ہے
وصی جلالپوری صاحب نے دوران نظامت اپنے اور دیگر شعرا کے انقلابی اشعار پیش کرتے ہوئے مسجد ایرانیان کے امام جماعت جناب مولانا نجیب الحسن زیدی صاحب کو دعوت سخن دی ۔
مولانا نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن کریم کی اس آیت سے کیا جسکا مفہوم کچھ اس طرح تھا " یہ لوگ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں لیکن اللہ نے اپنے نور کو مکمل کرنے کی ٹھان لی ہے چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے" مولانا نے نور کے بجھائے جانے کی دو صورتوں کو بیان کیا اول تو یہ کہ کبھی انسان ڈائرکٹ کسی چراغ کو بجھاتا ہے کبھی دوسروں کو مہرہ بناتا ہے خود پیچھے رہتا ہے قرآن نے دونوں ہی صورتوں میں وعدہ کیا ہے چاہے تم سامنے سے آو یا کسی کو سازو سامان فراہم کرو نور الہی کو نہیں بجھا سکتے مولانا نجیب الحسن زیدی صاحب نے اس آیت کی تطبیق حالات حاضرہ پر کرتے ہوئے مشرق وسطی میں نور ولایت کے مقابل صہیونیت کی کوششوں اور درپردہ بڑے ممالک کی جانب سے اسکے مکمل تعاون پر کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا کہ دنیا مل کر بھی آج چراغ توحیدی کو بجھانے میں ناکام ہے مولانا نے اپنے ایک جملے میں کہا "دنیا نے آئرن کی دُم بھی دیکھ لی ایران کا دَم بھی" انہوں نے مزید کہا کہ شہادت وہ منزل ہے جسکو پانے والے کبھی مرا نہیں کرتے شہید بہشتی رح کے قول کو پیش کرتے ہوئے مولانا نے کہا انسان در حقیقت اس دن مر جاتا ہے جب حق و باطل کے درمیان فرق نہ پیدا کر سکے" شہادت اس لئے ابدی حیات ہے کہ حق و باطل کے درمیان فرق کو اجاگر کرنے کا نام ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے مولانا نے کہا " جب چیزوں پر گرد پڑ جاتی ہے تو انہیں صاف کرنے کے لئے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے کبھی چیزیں زیادہ میلی ہو جاتی ہیں تو ان کے میل کو صاف کرنے کے لئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کے وجود پر جب بے غیرتی کا میل جم جائے تو شہادت کے خون کی ضرورت ہوتی ہے کچھ چیزیں لہو کے بغیر نہیں دھل سکتیں انسان کا آلودہ وجود بھی ایسا ہی ہے معاشرے جب آلودہ ہو جاتے ہیں بے غیرتی کا میل جب بیٹھ جاتا تو خون شہادت کے ذریعہ اسے پاک کیا جاتا ہے مولانا نے تقریر کے ساتھ اپنے اشعار بھی پیش کئے ۔
جن میں سے چند اشعار یہ ہیں : "
سعادتوں کا جہاں میں پیام بانٹتا ہے
ہر ایک دل کو یہ نورِ دوام بانٹتا ہے
خراجِ عشق علی ع کم سے کم شہادت ہے
علی ع کا عشق شہادت کے جام بانٹتا ہے ۔
یہ عشق حیدر کرار کی طبیعت ہے
اجالے چار سو یہ صبح و شام بانٹتا ہے ۔
اسکے بعد مولانا نے ان چار مصرعوں پر مجمع کی خوب داد لی :
غدیر سینہ میں رکھ کر ہم آگے آئے ہیں ۔
وہ اور ہیں جو سقیفہ پہ جاں چھڑکتے ہیں ۔
ہمارے پیش ِ نظر ہے غدیر کا میدان
بغیر خوف کھلے میں نماز پڑھتے ہیں
علی ع کے نام سے ملتی ہے زندگی سب کو
خبیث لوگ ہی ذکر ِ علی ع سے چِِڑھتے ہیں ۔
اس کے بعد جناب وصی جلالپوری صاحب نے مولانا احمد کمال خان صاحب کو دعوت سخن دی مولانا نے " استقامت کے موضوع پر اپنی نے پرجوش اور جامع تقریر میں شہادت کے فلسفے پر روشنی ڈالی
اور بیان کیا آپ ان شہیدوں کے کام کو کم مت سمجھیں انہوں سے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ موت کو بالکل آسان بنا دیا اور اس طاقت کے غبارے سے ہوا نکال دی جس سے سارے اسلامی ممالک خائف تھے اب دشمن خود پریشان ہے کہ انکے ساتھ کیا کرے انہیں تو موت سے بھی ڈرایا نہیں جا سکتا مولانا نے اپنی تقریر میں استادڈاکٹر رفیعی کے حوالے سے اس بات کو بیان کیا کہ اسرائیل کے قیام کے 3 سے چال سال بعد آیت اللہ بروجردی نے قم میں اسرائیل کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ کرنا چاہا تو لوگوں پر اسکے رعب کا عالم یہ تھا لوگوں نے جلسے میں آنے سے انکار کر دیا اور آج یہ صورت حال ہے کہ اسی ملک میں جہاں اسرائیل کے قیام کے ابتدائی ایام میں لوگ اسکے خلاف جمع نہیں ہو رہے تھے 7 دہائیاں گزر جانے کے بعد یہ حالت ہے کہ ہر مسجد ہر امامبارگاہ سے اسرائیل مردہ باد امریکہ مردہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں اور وہی ملک اکیلا اسرائیل کے خلاف ڈٹا ہوا ہے ۔
مولانا نے اپنی فکر انگیز تقریر میں اس بات کو بیان کیا کہ عزت و آبرو کے ساتھ جینے کی انسان کو قیمت چکانی پڑتی ہے جو ان شہدا نے چکائی ۔
جلسے میں نوجوانوں نے کثیر تعداد میں حصہ لیا اور دعائے امام زمانہ ع پر جلسے کا اختتام ہوا۔