ایکنا کی رپورٹ کے مطابق، چوتھا سمر اسکول "انعکاس" اس سال ستمبر میں "قرآن اور عہدین: روایات، سیاق و سباق اور بین المتونی روابط" کے موضوع پر منعقد ہوا۔
یہ پروگرام یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے تعاون سے منعقد کیا گیا، جس میں مختلف ممالک کے محققین نے شرکت کی، جو اس سے قبل اس موضوع پر اپنے علمی نتائج بین الاقوامی جرائد اور علمی اجتماعات میں پیش کر چکے تھے۔
چوتھے سمر اسکول "انعکاس" میں 40 گھنٹے پر مشتمل علمی لیکچرز، سوال و جواب کے ساتھ، چھ دن میں پیش کیے گئے۔ اس میں 14 مختلف ممالک کی 19 جامعات سے تعلق رکھنے والے محققین نے شرکت کی، جن میں سے 5 نے فارسی اور 14 نے انگریزی میں خطابات دیے۔
قرآن میں تصلیبِ مسیح (ع) کا تصور اور عیسائی متون کے ساتھ تقابلی مطالعہ رایان الزبتھ کریگ، جو مسیحی-مسلمان تعلقات اور قرآنی مطالعات کی محقق ہیں، اس سمر اسکول کی ایک اہم مقررہ تھیں۔ وہ برکلی سینٹر فار پیس اینڈ ورلڈ افیئرز میں طلبہ کے پروگراموں کی ڈائریکٹر اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں الولید سینٹر فار مسلم-کرسچن انڈرسٹینڈنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
کریگ کی تقریر "قرآن میں اعتقادی نمونے اور تصلیب" ایک وسیع تحقیقاتی منصوبے کا حصہ تھی، جو ساتویں صدی کے وسط سے تیرہویں صدی کے وسط تک مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان تصلیب کے گفتمان کے نمونوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کا مقصد مسیحی اور اسلامی مذہبی متون میں حضرت عیسیٰ (ع) کی تصلیب سے متعلق بیانیے کے تعامل اور اثرات کو سمجھنا اور ان کے تاریخی و معاصر تفسیری اختلافات کا تجزیہ کرنا ہے۔
تصلیب اور قیامت سے متعلق قرآنی اور مسیحی اصطلاحات کا موازنہ کریگ نے وضاحت کی کہ:
کریگ نے اپنی تحقیق میں مسیحی ایمان کے اعتقادی بیانات اور قرآنی آیات، خصوصاً سورۃ النساء کی آیات 157-158، : «وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی مطالعات میں اکثر بعد کے تفسیری خیالات کو ابتدائی متون پر لاگو کر دیا جاتا ہے، جو ایک تاریخی مغالطہ ہے۔
قرآن اور مسیحی متون میں تصلیب کی ترتیب کریگ کے مطابق:
علاوہ ازیں، مسیحی متون میں حضرت عیسیٰ (ع) کی موت کو ایک عمومی واقعہ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، جبکہ قرآن میں ان کے انجام سے متعلق ایک غیر یقینی کیفیت اور مختلف آراء کی موجودگی پر زور دیا گیا ہے۔
کریگ کا استدلال ہے کہ قرآنی آیات، خاص طور پر "شُبِّهَ لَهُمْ" (انہیں ایسا لگا)، تصلیب کے بارے میں ایک منفرد اسلامی نقطہ نظر پیش کرتی ہیں، جو مسیحی متون میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ، قرآن میں "تَوَفّی" کا استعمال ایک ایسی اصطلاح کے طور پر کیا گیا ہے جو "پورا لینا" یا "موت دینا" دونوں معنوں میں آ سکتی ہے، جس نے تفسیری اختلافات کو جنم دیا ہے۔
یہ تحقیق مسیحی-اسلامی مکالمے میں قرآنی آیات کے استعمال کے نمونوں کا تجزیہ کرتی ہے اور تصلیبِ مسیح (ع) کے گرد موجود متعدد الہٰیاتی بیانیوں کی تلاش کرتی ہے۔/